ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
اجارہ کے احکام جاری ہوںگے، مثلاً معین مدت کے لیے مکان میں سکونت سے استفادہ کرنا، لہٰذا مالک مکان کے لیے اس انتفاع کا عوض اس طرح لینا جائز ہے کہ وہ اپنا مکان معین مدت کے لیے طے شدہ کرایہ پر کسی کو دیدے،لیکن اگر مالک یہ منفعت دوسرے شخص کی طرف ہمیشہ کے لیے منتقل کرے، تو یہ اِس منفعت کی فروختگی ہے، جسے فقہاء احناف ’’بیعِ حقوقِ مجردہ ‘‘کا نام دیتے ہیں، جس کے جواز وعدم جواز میں حضرات فقہاء کرام کے مختلف نقطہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ حقوقِ مجردہ کے ذیل میں فقہاء کرام نے بہت سارے حقوق ذکر فرمائے ہیں: (۱) حق مُرور(۲) حق تعلّی، (۳) حق تسییل، (۴) حق شُرب، (۵) دیوار پر لکڑی رکھنے کا حق ، (۶) دروازہ کھولنے کا حق۔ فقہاء احناف کا مشہور قول یہ ہے کہ اِن حقوقِ مجردہ کی خرید وفروخت درست نہیں(۱۳)،لیکن متاخرین فقہاء نے ان میں سے بعض حقوق مثلاً حق تعلي ، حق شرب اور حق تسییل وغیرہ میں صلح اور دست برداری کے ذریعہ ان کا معاوضہ لینے کو جائز قرار دیا ہے۔(۱۴) البتہ فقہاء مالکیہ ، شافعیہ اور حنابلہ کی کتابوں میں معروف یہ ہے کہ ان میں سے اکثر حقوق کا عوض لینا جائز ہے۔ (جدید معاشی نظام میں اسلامی قانونِ اجارہ:ص/۴۵۰، حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے:ص/۴۱۸ تا ۴۲۹) حضراتِ فقہاء کے مابین حقوقِ مجردہ کی بیع کے جواز وعدم جواز کے اس اختلاف کی بنیاد اصلاً بیع کی تعریف ہے۔ فقہاء احناف کے مشہور قول کے مطابق بیع کی تعریف: ’’مبادلۃ المال بالمال