ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
المستصنع والرضا بہ حتی کان للصانع أن یمتنع من الصنع وأن یبیع المصنوع قبل أن یراہ المستصنع ، وللمستصنع أن یرجع أیضا ۔ (۵/۲۱، دار الکتب العلمیۃ) وفي بدائع الصنائع : (ومنہا) وہو شرط انعقاد البیع للبائع أن یکون مملوکا للبائع عند البیع فإن لم یکن لا ینقعد ، وإن ملکہ بعد ذلک بوجہ من الوجوہ إلا السلم خاصۃ ۔ (۵/۱۴۶، دار الکتب العلمیۃ) (۳)۔۔۔ زمین کی ہلاکت کی جو صورتیں حضراتِ فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمائی ہیں وہ یہ ہیں کہ مثلاً زمین کسی سمندر یا دریا کے کنارے پر واقع ہو اور پانی کی موجوں کے ٹکرانے کی وجہ سے اس زمین کے سمندر بُرد ہونے کا اندیشہ ہو، یا زمین کسی اونچی جگہ پر ہو اور اس کے گرنے کا خطرہ ہو، یا زمین کسی ایسی جگہ ہو کہ جہاں ریت میں دب جانے کا احتمال غالب ہو، سوال میں ذکر کردہ صورتیں زمین کی ہلاکت میں داخل نہیں ، اس لئے یہ صورتیں علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ کی مذکورہ شرط میں تو داخل نہیں ، تاہم ’’بیع‘‘ کے صحیح ہونے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ جس چیز کو بیچا جارہا ہے وہ ’’مقدور التسلیم‘‘ ہو، یعنی مالک عدالتی کاروائی کے بغیر اس چیز کو خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو اور خریدار کو عدالتی کاروائی کے بغیر اس چیز کا قبضہ حاصل ہوجائے، سوال میں ذکر کردہ صورتوں میں اگر ’’مبیع‘‘ مقدور التسلیم نہ ہو تو اس کی بیع ’’غیر مقدور التسلیم‘‘ ہونے کی وجہ سے شرعاً درست نہیں ہوگی۔ (مأخذہٗ امداد الفتاویٰ:۳/۳۴) لما فی فتح القدیر : لأبي حنیفۃ وأبي یوسف أن رکن البیع صدر من أہلہ في محلہ والمانع المثیر للنہي وہو غرر الانفساخ بالہلاک منتف فإن ہلاک العقار نادر والنادر لا عبرۃ بہ ولا یبنی