ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
والے (صانع) کی طرف سے بنوانے والے (مستصنع) کو فلیٹ یا دکان کا قبضہ نہ دیا گیا ہو تو دونوں صورتوں میں فلیٹ یا دکان، بنوانے والے کی ملکیت میں نہیں آئی، اور اس کے لیے آگے بیچنا بھی شرعاً درست نہیں ہے۔ تاہم اس کی جائز صورت یہ ہوسکتی ہے کہ بنوانے والا آگے کسی اور شخص سے فلیٹ یا دکان کی خرید وفروخت کا عقد نہ کرے بلکہ صرف بیچنے کا وعدہ کرلے کہ جب فلیٹ یا دکان تعمیر ہوجانے کے بعد بنوانے والے کے قبضہ میں آئے گی تو وہ اسے آگے فلاں شخص کو بیچے گا، اور رقم باہمی رضامندی سے چاہے تو ابھی لے لے، اس صورت میں یہ رقم ثمن (قیمت) نہیں ہوگی بلکہ بنوانے والے پر قرض ہوگی، وہ اس کو اپنے استعمال میں لاسکتا ہے، پھر جب بنوانے والا فلیٹ یا دکان پر قبضہ کرکے آگے بیچے گا تو اسی لیے گئے قرض سے ثمن منہا کرلیا جائے گا۔ (مأخذہٗ تبویب: ۱۳۵۷؍۱) لما فی المحیط البرہاني : ثم کیف ینعقد معاقدۃ ؟ نقول ینعقد إجارۃ ابتداء ویصیر بیعاً انتہاء متی سلم قبل التسلیم بساعۃ بدلیل أنہم قالوا : إذا مات قبل تسلیم العمل بطل الاستصناع ولا یستوفي المصنوع من ترکتہ ۔ ولو انعقد بیعاً ابتدائً وانتہائً لکان لا یبطل بموتہ کما في بیع العین والسلم ۔ (۷/۱۳۵، دار الکتب العلمیۃ) وفي بدائع الصنائع : أما حکم الاستصناع : فہو ثبوت الملک للمستصنع في العین المبیعۃ في الذمۃ ، وثبوت الملک للصانع في الثمن ملکا غیر لازم ۔ (۵/۳، دار الکتب العلمیۃ) وفي بدائع الصنائع : (وأما) کیفیۃ جوازہ فہي أنہ عقد غیر لازم في حق کل واحد منہما قبل رؤیۃ