ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
زمین کے کاروبار کرنے والوں سے معلوم کیا، ان حضرات نے جو تفصیل بتائی اس سے یہ واضح ہوا کہ ابتداء ً بیع تام نہیں ہوتی ہے ، بلکہ محض وعدۂ بیع ہوتا ہے، بقیہ رقم کی ادائیگی اور زمین کی رجسٹری کے وقت بیع تام ہوتی ہے، بیعانہ کی رقم محض اعتماد ووثوق پیدا کرنے کے لیے ہوتی ہے، چنانچہ یہاں کے مفتیانِ کرام کی یہی رائے ہے، میں نے یہاں کے مفتیانِ کرام اور قاضی حضرات سے مشورہ کیا، تو سب اسی پر متفق ہوئے کہ یہ محض وعدۂ بیع ہے،بیع تام نہیں، لہٰذا بیع مکمل ہونے سے قبل کسی دوسرے کے ہاتھ فروخت کرنا صحیح نہیں ہے۔ ۲- دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ تجارتی کمپنیاں اپنی تجارت کو فروغ دینے اور خریداروں میں رغبت پیدا کرنے کے لیے قرعہ اندازی کے ذریعہ انعام دینے کا بھی اعلان کرتی ہیں، اور جس کانام آجائے اس کو انعام بھی دیتی ہیں، تو اس طرح کی کمپنیوں سے خرید وفروخت کا معاملہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ مفتی محمد صالح سہارنپوری صاحب نے لکھا ہے کہ اگر کمپنیاں ثمنِ مثل پر خریدار کو مبیع دیتی ہیں، تو ان کمپنیوں سے کاروبار کرنا شرعاً جائز ہے، اس لیے کہ اس پر قمار کی تعریف صادق نہیں آتی ہے ، کیوں کہ خریدار کے ثمن کا کوئی بھی حصہ داؤ پر نہیں لگ رہا ہے، جب کہ مولانا مفتی محمد جعفر ملی صاحب اس بات کے قائل ہیں کہ اس طرح کی کمپنیوں کے کاروبار کے پیچھے چوں کہ جوا اور قمار کی روح کار فرما ہوتی ہے، اس لیے محض انعام کی لالچ میں ان سے خرید وفروخت شرعاً ناجائز ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں راقم الحروف کی رائے یہ ہے کہ اگر کمپنیاں اپنے خریداروں کو ثمنِ مثل پر مبیع دیتی ہیں، زائد قیمت نہیں لیتی ہیں ، تو ان سے خرید وفروخت کرنا شرعاً جائز