ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
کاروبار کرنے والوں سے دریافت کرکے اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ محض وعدۂ بیع ہے ، نہ کہ بیع تام، اسی طرح مفتی محمد صالح سہارنپوری صاحب کوبھی اپنے علاقہ کے بروکروں اور زمین کے کاروبار کرنے والے لوگوں سے دریافت کرنا چاہیے، اگر ان کے یہاں کا عرف یہی ہے کہ ابتداء ً ہی ایجاب وقبول کے ذریعہ بیع تام ہوجاتی ہے، اور بقیہ قیمت ادا کرنے پر رجسٹری کو موقوف رکھا جاتا ہے، تو ان کا اپنا یہ موقف صحیح ہے، لیکن یہ حکم صرف اسی علاقہ کے لیے ہوگا جہاں کا یہ عرف ہو، اور اگر ایسا نہیں ہے بلکہ زمین کی خرید وفروخت کی بات ہوتی ہے اور بیعانہ کی رقم معاملہ میں پختگی لانے اور اعتماد پیدا کرنے کے لیے ہوتی ہے، ایجاب وقبول کے ذریعہ بیع تام اس وقت ہوتی ہے جس وقت بقیہ رقم جمع کرکے رجسٹری کرائی جاتی ہے، تو مفتی صاحب کو اپنی رائے پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ مفتی محمد صالح سہارن پوری صاحب نے اکابر مفتیانِ کرام کے جو فتاویٰ نقل کیے ہیں ان سب میں سوال کی شق متعین ہے کہ ایجاب وقبول کے ذریعہ بیع مکمل ہوچکی ہے، قیمت کا کچھ حصہ ادا ہوا ہے اور کچھ باقی ہے ، اکابر کے جواب بھی سوال کے مطابق واضح ہیں، ظاہر ہے کہ یہ معاملہ ہی زیرِ بحث نہیں ہے، اس لیے کہ یہ مسئلہ تو متفق علیہ اور بالکل واضح ہے کہ ایجاب وقبول کے ذریعہ بیع تام ومکمل ہوجانے کے بعد قیمت کی ادائیگی نقد بھی ہوسکتی ہے، اور تراضی ٔ طرفین سے ادھار بھی ہوسکتی ہے، اور بیع کے تام ومکمل ہونے کے لیے زمین کی رجسٹری بھی شرط نہیں ہے، اور اس طرح بیع ہوجانے کے بعد زمین پر قبضہ کرنے سے قبل دوسرے سے بھی فروخت کرسکتے ہیں، اس میں تو کوئی کلام ہی نہیں ہے، اصل مسئلہ جو زیر بحث ہے اس کے لیے بروکروں اور