ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
اس سلسلے میں حضرت کا فتویٰ درج ذیل ہے:سوال (۹۰۳۸) : ایک طریقۂ تجارت باقاعدہ اسکیم کے تحت تقریباً پوری دنیا میں چل رہا ہے، ہمارا ہندوستان بھی اس میں ملوث ہے، اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی تاجر یا کوئی کمپنی یا کوئی پارٹی ممبر سازی کرتی ہے: مثلاً کوئی سائیکل اسکیم چلاتی ہے، اس سائیکل کی اصل قیمت ۵۰۰؍ روپئے ہے، اس صورت میں ۵۰؍ روپئے ماہانہ کے بیس ممبر بنائے جاتے ہیں، اور ایک ماہ میں ایک مرتبہ قرعہ اندازی کی جاتی ہے، اس قرعہ میں جس ممبر کا نام نکل جاتا ہے، اس کو صرف ۵۰؍ روپئے میں سائیکل مل جاتی ہے، اس طرح ہر ماہ قرعہ اندازی میں نام نکلنے والے کو سائیکل ملتی رہے گی، یہ صورت ہرمہینہ چلے گی، اور دسویں مہینہ میں جتنے باقی رہیں گے سب کو سائیکل دیدی جائے گی، اس میں اسکیم چلانے کا فائدہ یہ ہے کہ اس کو پہلے ماہ میں ایک ہزار روپئے ملیں گے، جس میں وہ پانچ سو روپئے کی چیز دے گا، اور مابقیہ رقم اپنی تجارت میں لگائے گا، اسی طرح نو ماہ تک کچھ نہ کچھ رقم بچتی رہے گی، اور پانچ سوروپئے کی چیز جاتی رہے گی، دسویں ماہ میں ما بقیہ ممبروں کو وہ چیز پوری پوری دیدی جائے گی، البتہ پہلے اور دوسرے تیسرے اور دیگر قرعہ اندازی کے اندر نکلنے والے ناموں کو یہ چیز کم قیمت میں ملتی ہے، یہ معاملہ فریقین کی رضامندی سے طے ہوتا ہے، آیا یہ اسکیم سود وقمار میں داخل ہے یانہیں؟ سود اور قمار اگر ہے تو کیسے؟ الجواب حامداً ومصلیاً: یہ معاملہ شرعاً درست نہیں، وقت عقد ثمن مبیع متعین ہونا چاہیے، وہ یہاں متعین نہیں بلکہ مجہول ہے کمی زیادتی ظاہر ہے کہ جتنی رقم دی ہے اس پر زیادتی کونسے عقد کی بنا پر