ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
فتوے کو بھی یہ کہہ کر ناقابلِ اعتبار قرار دیا کہ: ’’ اس جواب میں پیش کردہ حدیث صورتِ مسئلہ پر منطبق نہیں ہوتی‘‘ اور اپنے موقف کی تائید میں امداد الفتاویٰ :۳/۲۲، اسی طرح فتاویٰ نظامیہ اوندراویہ : ۲/۳۴۱، کے دو فتاویٰ نقل کیے، جو موصوف کی وضاحت میں موجود ہیں، جب کہ اس سلسلے میں احسن الفتاویٰ کے جس فتوے کا حوالہ دیا گیا وہ اس طرح ہے: سوال:آج کل ایک موٹر سائیکل کمپنی اپنی مشہوری کے لیے ایک طریقہ اختیار کیے ہوئے ہے کہ اقساط پر موٹر سائیکلیں فروخت کررہی ہے، اکیس اقساط مقرر کی گئیں اور ہر قسط پانچ سو روپئے ماہوار ادا کرنا ہوتی ہے، اگر اقساط پوری کرنے سے پہلے درمیان میں کسی خریدار کا نام قرعہ اندازی میں نکل آیا (ہرماہ قرعہ اندازی ہوتی ہے) توموٹر سائیکل اسے دیدی جاتی ہے،اور بقیہ تمام اقساط معاف کردی جاتی ہیں، اگر بیس ماہ تک قرعہ اندازی میں خریدار کا نام نہ نکلے تو اکیس ماہ کے بعد موٹر سائیکل اسے دیدی جاتی ہے، اور یہ اکیس اقساط کی رقم موٹر سائیکل کی وہ قیمت ہے جو مارکیٹ میں چل رہی ہے، زیادہ نہیں ، خرید وفروخت کا یہ طریقہ جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا الجواب باسم ملہم الصواب: یہ قیمت میں کمپنی کی طرف سے رعایت ہے اور کس خریدار کو رعایت دی جائے اس کا انتخاب وہ بذریعہ قرعہ اندازی کرتی ہے، اس میں کسی کا کوئی نقصان نہیں، لہذا یہ خرید وفروخت جائز ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم(۶/۵۱۸) حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب(پاکستان) کا یہ فتویٰ حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی (مفتی اعظم ہند ودار العلوم دیوبند )کے فتوے کے معارض ہے،