ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
ہے، اس کو قمار بھی کہا جاسکتا ہے اور ربا بھی۔ فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم (فتاویٰ محمودیہ :۲۴/۴۸۸، جوئے کے مسائل، مکتبہ محمودیہ میرٹھ) اس لیے مفتی رشید احمد صاحب (پاکستانی )کے فتوے کا حوالہ اپنے موقف کی تائید میں پیش کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔ فتأمل وتدبر حقیقت یہ ہے کہ عموماً انعامی اسکیموں کے ساتھ کاروبار کے پیچھے ذہنی قمار ہی کار فرما ہوتا ہے،یہی وجہ تھی کہ حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمن صاحب (مفتی اعظم دار العلوم دیوبند) نے اس طرح کی انعامی اسکیم کے ساتھ خرید وفروخت کو ناجائز قرار دے کر فرمایا کہ:’’علاوہ بریں یہ ایک صورت قمار کی ہے جو کہ حرام ہے۔‘‘ اس لیے ایسے معاملات کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے، نہ یہ کہ ان کے جواز پر اصرارہو۔ (دیکھئے:فتاویٰ دار العلوم:۱۴/۵۰۶،جدید فقہی مسائل: ۴/۲۷۵ ، ۲۷۶ ، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)