ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
پر قائم رکھنے اور اس سے بقیہ رقم وصول کرنے کے لیے ہر قسم کی قوت استعمال کرسکتا ہے، اگر وہ زید کو بیع پر قائم رکھنے سے عاجز ہوگیا ، تو بکر زید کی بیعانہ کی رقم واپس کردے۔‘‘ حضرت مفتی صاحب کے اس فتوے میں جس بیعانہ کا ذکر ہے وہ بھی ، تمامیتِ بیع کے بعد والا بیعانہ ہے ، نہ کہ وہ بیعانہ جو معاہدہ کی پختگی اور وثوق کے ـلیے دیا جاتا ہے، اس لیے اس فتوے کو بھی اپنی تائید میں نقل کرنا درست نہیں ہے۔ اسی طرح موصوف نے اس ضمن میں فتاویٰ محمودیہ -۱۶/۱۶۸ کا حوالہ بھی دیا ہے ، جس کی احقر نے مراجعت کی ، اس کا عنوان ہے ’’ بیعانہ لینے سے بیع‘‘-جس کے ذیل میں حضرت رحمہ اللہ سے یہ استفسار کیا گیا کہ عمر نے زید کو ایک مکان چوتھائی حصہ چار سو میں فروخت کردیا اور مبلغ سو روپئے بطورِ بیعانہ لیکر یہ تحریر لکھ دی کہ میں مبلغ سور وپئے بطور بیعانہ اب لیتا ہوں اور مبلغ تین سور وپئے رجسٹری کے وقت لوں گا، زید نے جب عمر سے رجسٹری کا تقاضہ کیا تو عمر رجسٹری کو ٹالتا رہا اور کچھ عرصے بعد مکان پر جبراً قبضہ کرلیا، اور جو مبلغ سو روپئے بطور بیعانہ لیا تھا اس کے واپس دینے سے بھی انکار کیا، تو کیا یہ بیع صحیح ہوگئی یا نہیں؟وغیرہ۔حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے اپنے جواب میں تحریر فرمایا:… ’’ صحیح ہوگئی‘‘… حضرت کے اس فتوے میں بھی جس بیعانہ کی بنیاد پر بیع کی صحت کاحکم لگایا گیا،وہ وہی بیعانہ ہے جو تمامیتِ بیع کے بعد دیا جاتا ہے، نہ کہ وہ بیعانہ جو معاہدۂ بیع کی پختگی اور وثوق کے لیے دیا جاتا ہے، اس لیے اس فتوے کا حوالہ اپنی تائید میں نقل کرنا غلط ہے۔