ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
پیمینٹ ادا کردینے کے بعد جو رقم بچتی ہے اسے منافع کے طور پر رکھ لیتا ہے، یعنی ابھی یہ زمین اس کی ملک میں آئی بھی نہیں کہ اس سے پہلے ہی وہ اسے کسی اور کے ہاتھ فروخت کردیتا ہے، شریعت اس طرح کی بیع کو ناجائز کہتی ہے، کیوں کہ اس طرح کی بیع میں دھوکہ و غرر ہے،وہ اس طرح کہ ہوسکتا ہے خریدار پارٹی مدت کے پوری ہونے سے پہلے مفلس وکنگال ہوجائے، اور زمیندار کووقت پر مقررہ قیمت نہ ادا کرسکے، جس کی وجہ سے یہ بیع پوری نہ ہوپائے، یا یہ بھی ممکن ہے کہ مدت پوری ہونے سے پہلے خود زمیندارکی مدتِ عمر پوری ہوجائے، اور زمین پر اس کے ورثاء کے نام چڑھ جائیں،اور وہ اس زمین کو فروخت نہ کریں، جس کی وجہ سے یہ بیع پوری نہ ہو پائے،معلوم ہوا کہ بیع کی یہ صورت دھوکہ اور غرر پر مشتمل ہے ، جس سے شریعت منع کرتی ہے ۔‘‘ (احکام القرآن للجصاص:۲/۲۱۹)کیا یہ مسئلہ صحیح ہے؟ المستفتی : عبد اللہ خالد قاسمی خیر آبادی مدیر ماہنامہ مظاہر علوم سہارنپور۔۲۲؍ ربیع الاول ۱۴۳۳ھ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب حامداً ومصلیاً مذکورہ مسئلہ صحیح نہیں ہے کیونکہ حضرات شیخین رحمہما اللہ کے مفتی بہ قول کے مطابق زمین کی بیع قبل القبض بھی جائز ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قبضہ سے پہلے کسی چیز کو آگے فروخت کرنا اس وجہ سے ناجائز ہوتا ہے کہ اس میں غیر مضمون چیز کا نفع لینا لازم آتا ہے، جس کی احادیث میں ممانعت ہے اور ضمان کا تصور اس چیز میں ہوتا ہے جس میں ہلاکت کا خوف ہو اور پلاٹ کے ہلاک ہونے کا عام طور سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا، لہذا اسمیں ضمان کا تصور نہیں ہے، چنانچہ پلاٹ کو قبضہ سے پہلے فروخت کرنے سے غیر مضمون شے کا نفع لینا بھی لازم نہیں آتا۔ (مأخذہ تبویب ۸۱۲/۵۵ بتوقیع نائب رئیس الجامعہ مد ظلہم)، لہذا صورت مسئولہ میںاگر زمین اور ثمن متعین ہوکر ایجاب