ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
ہیں، بحث بیع کی تعریف اور اس کے نقد و ادھار کے جواز سے نہیں، بلکہ اصل موضوعِ بحث بیع کی وہ صورت ہے جو مضمون میں قلمبند کی گئی، کہ وہ بیع نہیں بلکہ معاہدۂ بیع ہے) ۲- موصوف نے احقر کے مضمون میں قلمبند’’بیع عقار ‘‘ کی صورت کو بیع تام قرار دے کر اسے جائز قرار دیا ، اور اپنے موقف کی تائید میں دو فتوے نقل کیے، پہلا فتویٰ حضرت مولانا مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوری رحمہ اللہ کا ہے، جس کا عنوان ہے ’’بیع (سودا) مکمل ہوجانے کے بعد بائع صرف اپنی مرضی سے بیع فسخ نہیں کرسکتا‘‘ - حضرت رحمہ اللہ کے فتوے کا لب لباب یہ ہے کہ بیع (سودا) مکمل ہوجانے کے بعد جو بیعانہ دیا جاتا ہے ، اس سے بیع تام ہوجاتی ہے ، اور بائع مشتری کی رضامندی کے بغیر اس بیع کو فسخ نہیں کرسکتا، آپ رحمہ اللہ کے اس فتوے میں جس بیعانہ کے دیئے جانے پر بیع کی تمامیت کی بات کہی گئی وہ، وہ بیعانہ ہے جو بیع کے بعد دیا جاتا ہے، نہ کہ وہ جو معاہدۂ بیع کی پختگی اور وثوق کے لیے دیا جاتا ہے۔اس لیے اس فتوے کو اپنی تائید میں نقل کرنا درست نہیں ہے۔ دوسرا فتویٰ صاحبِ احسن الفتاویٰ حضرت مولانا مفتی رشید صاحب پاکستانی رحمہ اللہ کا ہے، جس کا عنوان یہ ہے ’’ مشتری نے مبیع لینے سے انکار کردیا تو بیعانہ واپس کرنا ضروری ہے‘‘-اس فتوے کو بغور پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمامیتِ بیع کے بعد زید نے بکر کو بطورِ بیعانہ سو روپئے دیئے تھے، پھر وہ اس بیع کو فسخ کرنے اور اپنی بیعانہ کی رقم کی واپسی کا طالب تھا، جس پر حضرت مفتی رشید صاحب نے یہ لکھا کہ: ’’ بکر کی رضامندی کے بغیر زید اس بیع کو فسخ نہیں کرسکتا، اور بکر زید کو بیع