ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
سوال: زید نے بکر سے دس ہزار(۱۰۰۰۰) کا پلاٹ خریدا ، سودا طے ہوجانے کے بعد سو روپئے زید نے بکر کو دیئے اورکہا کہ بقیہ رقم ایک ماہ میں ادا کرکے پلاٹ پر قابض ہوجاؤں گا، ایک ماہ بعد جب بکر نے رقم کا مطالبہ کیا تو زید نے انکار کردیا،شرعاً بکر اس رقم کا لوٹانے کا پابند ہے یانہیں؟الجواب : بکر کی رضا کے بغیر زید کو فسخ کا اختیار نہیں، بکر زید کو بیع پر قائم رکھنے اور اس سے بقیہ رقم وصول کرنے کے لیے ہر قسم کی قوت کا استعمال کرسکتا ہے، اگر وہ زید کو بیع پر قائم رکھنے سے عاجز ہوگیا تو بیعانہ واپس کرنا ضروری ہے۔ فسادِ زمانہ کی وجہ سے ایسے مظالم بہت زیادہ واقع ہونے لگے ہیں ، اس لیے ظلم اور نقصان سے بچنے کی چند تدابیر تحریر کی جاتی ہیں ، اس میں دوسری تدبیر یہ ہے۔ (۲) بائع مشتری کی اجازت سے مبیع کو دوسری جگہ فروخت کردے اگر پہلی قیمت سے کم پر فروخت ہوئی تو یہ نقصان بیعانہ سے وصول کرلے، اور زیادہ قیمت مل گئی تو زیادتی مشتری اول کو واپس کرے۔ (احسن الفتاویٰ:۶/۵۰۰، فتاویٰ محمودیہ:۱۶/۱۶۸) پر بھی اسی طرح مذکور ہے۔ دوسری صورت جس کو صاحبِ مضمون نے ناجائز لکھا ہے وہ ’’ تجارتی انعامی اسکیمیں‘‘ ہیں۔ مذکورہ صورتیں بھی ہمارے نزدیک عدم جواز کے دائرہ میں نہیں آتیں، اس لیے کہ اس کا مقصد جُوا ، اور قمار ہے ہی نہیں اور نہ اس پر جوئے کی تعریف صادق آتی ہے، اس لیے کہ خریدار جتنی رقم دوکاندار کو دے رہا ہے اس کا معاوضہ دوکاندار سے مبیع کی شکل میں وصول کرلیتا ہے، بعد میں بشکل انعام بائع مشتری کو جو کچھ بھی دیتا ہے چاہے قرعہ کی شکل میں ہو یا متعین صورت میں ہو ، وہ اس کی طرف سے انعام اور زیادتی فی المبیع شمار ہوگی ، اور فقہاء نے بیع مکمل ہوجانے کے بعد زیادتی فی المبیع کی اجازت دی ہے بشرطیکہ خوش دلی ورضامندی سے ہو۔ امداد الفتاویٰ میں ایک سوال وجواب اس طرح ہے: