ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
علی دفع عربون (بیعانہ ۔ ٹوکن) لأنہ جزء من الثمن ‘‘۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ :۴/۲۹۳۸) اس سلسلہ میں اکابر کے دو فتاویٰ نقل کرتا ہوں جن سے مسئلہ کی پور ی وضاحت ہوجاتی ہے، فتاویٰ رحیمیہ جدید: ۹/۲۲۴ میں مذکور ہے:سوال: میں زمین ومکان کی دلالی کا کام کرتا ہوں ایک مکان کے چار بھائی اور چار بہنیں وارث ہیں ، سب نے اپنا مکان بیچنے کے لیے مجھ سے کہا، ان کے کہنے کی وجہ سے میں نے خریدار تلاش کیا ،اس سے بات چیت کی مزید اطمینان کے لیے براہِ راست تمام وارثین سے گفتگو کروائی،ایک دو مجلس میں خریدار نے ان کی مطلوبہ رقم پر رضامندی ظاہر کی بلکہ آخر ی مجلس میں تو تمام بھائی بہنوں نے تنہائی میں بھی مشورہ کیا ، اور سب نے متفقہ طور پر سودا منظور کرلیا، اور خریدار کو بہت وثوق کے ساتھ اطمینان دلایا، خریدار نے بطورِ بیعانہ گیارہ ہزار (۱۱۰۰۰) روپئے اسی مجلس میں دے دیئے، اور بقیہ قیمت دینے کے لیے ایک معینہ مدت مقرر کرلی گئی، اس کے بعد خریدار نے دستاویز بنانے کی کارروائی شروع کردی اور اس پر کافی خرچ بھی کرچکا ہے ، ان تمام باتوں کے بعد اب دو بھائی کہتے ہیں کہ ہمیں سودا منظور نہیں ہے ، میں نے ان کو تمام باتیں یا د دلائیں مگر وہ دونوں بیع کو رد کرنا چاہتے ہیں جب کہ خریدار تیار نہیں ہے، تو کیا یہ دونوں اپنی مرضی سے یہ سودا ختم کرسکتے ہیں؟الجواب : صورتِ مسئلہ میں جب سب بھائی بہنوں کی رضامندی سے سودا کیا گیا، کسی نے بھی اس سے اختلاف نہیں کیا اورمشتری کو پورا اطمینان بھی دلایا اور گیارہ ہزار روپئے بیعانہ کے بھی لے لیے، تو مذکورہ سودا مکمل ہوگیا، اب مشتری کی رضامندی کے بغیر اس بیع کو فسخ نہیں کرسکتے ، ہدایہ آخرین میں ہے : إذا حصل الإیجاب والقبول لزم البیع ولا خیار لواحد منہما إلا من عیب أو عدم رویۃ ۔ (ص/۴) (۲) احسن الفتاویٰ میں ایک سوال و جواب اس طرح ہے: