ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
مضمون سے رابطہ کیا جائے وہاں سے اگر کوئی وضاحت آجائے تو بہتر ہے ورنہ از خود صحیح صورتِ حال سے قارئین کو آگاہ کردیا جائے۔ چنانچہ مظاہر علوم کے استاذ ومفتی مولانا سید محمد صالح سہارنپوری کو اس کے لیے منتخب کیا گیا، مفتی صاحب موصوف نے اکابر کے فتاوی کی روشنی میں محررہ صورت سے اختلاف کرتے ہوئے صحیح صورتِ حال دلائل کے ساتھ بہت وضاحت سے لکھی احقر نے بذریعہ ’’ای میل‘‘ صاحب مضمون کو روانہ کیا وہاں سے تشفی بخش جواب موصول نہ ہوا، اس لیے مفتی سید محمد صالح صاحب نے دوبارہ مزید وضاحت اور دلائل کے ساتھ صاحب مضمون کو لکھا ۔اب اکابر کے مشورے سے یہ طے ہوا کہ مراسلت کا یہ سلسلہ بند کرکے ہمارے یہاں کے مفتیانِ کرام کا جو موقف ہے اس کی وضاحت کردی جائے۔ (مرتب ماہنامہ)} (۱) پہلی صورت جس کو صاحبِ مضمون نے ناجائز لکھا ہے وہ زمین کی خرید وفروخت کا مروجہ طریقہ ہے ، ہمارے نزدیک شرعاً یہ معاملہ جائز ودرست ہے، اس لیے کہ صحت بیع کے لیے شریعت نے صرف عاقدین کی رضامندی اور ایجاب وقبول کو ضروری قرار دیا ہے، بیعنامہ ورجسٹری ہونے پر بیع کی تمامیت موقوف نہیں ، ’’البیع ہو مبادلۃ المال بالمال بالتراضی ویلزم بإیجاب وقبول‘‘۔ (کنزالدقائق : ص/۲۲۷) رجسٹری کا مقصد قانونی استحکام ہے اور مزید کچھ نہیں۔نیز جس طرح نقد بیع کرنا جائز ہے ، اسی طرح ادھار بیع کرنا بھی جائز ہے چاہے وہ عروض کی بیع ہو یا زمین کی بیع وشراء ہو، بیع سلم کا دار ومدار ہی ادھار پر ہوتا ہے ’’ویجوز البیع بثمن حال ومؤجل إذا کان الأجل معلوماً الخ‘‘ ۔ (ہدایہ مع فتح القدیر:۶/۲۴۲) سودا تمام شرائط کے ساتھ طے ہوجانے کے بعد بطور بیعانہ مشتری جو رقم دیتا ہے (جس کو عرف میں ٹوکن کہتے ہیں) اس سے بیع مکمل ہوجاتی ہے اور وہ ثمن کا ایک حصہ ہوتا ہے ، اکابر نے اس کو بیع مانا ہے نہ کہ وعدۂ بیع، کیوں کہ بیعانہ عرف میں ایجاب اور اس کا لے لینا قبول شمار ہوتا ہے’’ کذلک ینعقد لو اقتصر المشتری