ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
توآپ اپنے عرف وعادت کے مطابق اس کو بیع تام قرار دے کر جواز کا فتویٰ دے دیں، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ، مگر یہ بات پیش نظر رہے کہ فقہ کا یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ’’ عقود ومعاملات میں معانی کا اعتبار ہوتا ہے، نہ کہ الفاظ کا‘‘ {العبرۃ في العقود للمقاصد والمعاني لا للألفاظ والمباني}(قواعد الفقہ:ص/۹۱، رقم:۱۸۳)ہماری اپنی تحقیق و عرف کی بنیاد پر ہمارا موقف بدستور وہی ہے جو مضمون میں مذکور ہے۔ نیز آپ اپنی تحریر میں بار بار جویہ باتیں لکھ رہے ہیں کہ بیع نام ہے ایجاب وقبول کا، اور بیع عقار قبل القبض درست ہے، رجسٹری ضروری نہیں ہے، یہ تمام باتیں ہمارے علم میں ہیں؛ نہیں ہے، ایسا نہیں ؛جیسا کہ آپ کی تحریر سے مترشح ہوتا ہے، لیکن بیع کی جو صورت بیان کی گئی وہ وعدۂ بیع کی ہے، جس میں تکمیلِ بیع سے قبل غررِ انفساخِ عقد ، ربح ما لم یضمن و غیرہ جیسی علتیں پائی جانے کی وجہ سے اسے ناجائز لکھا گیا۔ ۲- انعامی اسکیموں کے عدم جوازسے متعلق راقم نے علماء عرب کے جو فتاویٰ نقل کیے، انہیں آپ نے صرف اتنا لکھ کر غیر معتبر قرار دیاکہ’’ ان سے ہم کو اتفاق نہیں‘‘، جبکہ اس سلسلے میں پاکستان کے حضرت مولانا مفتی عبد الواحد صاحب ، اور ہندوستان کے ممتاز فقیہ حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی دامت برکاتہم کی آراء کے ساتھ ساتھ ، ازہرِ ہند دار العلوم دیوبند کے مایۂ ناز فقیہ، مفتی اعظم ، حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانی رحمہ اللہ کا فتویٰ بھی نقل کیا گیا تھا، جس کے متعلق آپ نے یہ تحریر کیا کہ ’’حضرت کے جواب میں پیش کردہ حدیث صورتِ مسئلہ پر منطبق نہیں ہوتی‘‘، آپ نے دلیل کے عدم انطباق کا ذکر تو کیا، مگر اصلِ جواب