ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
صاف انکار کیا کہ بیع کی اس صورت میں مبیع مالک کی ملک سے خارج ہوتی ہے،اور مشتری تکمیل بیع سے پہلے تصرفاتِ ملک کا مجاز ہوتا ہے،یہ ہمارے اپنے علاقے میں زمین کا کاروبار کرنے والوں کا قول اور ان کا عرف ہے، اور ظاہر بات ہے کہ معاملات میں عرف کا اعتبار ہوتا ہے، جیسا کہ علامہ شامی رحمہ اللہ ’’عقود رسم المفتی‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’ والعرف في الشرع لہ اعـتبار - لـذا عـلـیہ الـحـکم قـد یُدار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وفي البحر عن مناقب الإمام محمد للکردري : کان محمد یذہب إلی الصبّاغین ویسئل عن معاملتہم وما یدیرونہا فیما بینہم ‘‘ ۔ (ص/۱۷۵-۱۸۱) لہٰذا ہماری اپنی اس تحقیق کی بنیا د پر بیع عقارکی یہ صورت جو مضمون میں ذکر کی گئی ، عرفاً، شرعاً اور قانوناً وعدۂ بیع ہی ہے، بیع تام نہیں،اب اگر آپ کے اپنے علاقے میں بیع عقار کی یہی صورت بیع تام ہے ، بایں طور کہ مبیع بائع کی ملک سے نکل کر مشتری کی ملک میںداخل ہوجاتی ہے، اور مشتری اپنی ملک میں ان تمام تصرفات کا مجاز ہوتا ہے،جوحضراتِ فقہاء کی ملک کی اس تعریف سے واضح ہوتے ہیں: ’’ الملک التام في اصطلاح الفقہاء : ہو الذي یخول صاحبہ حق التصرف المطلق في الشيء الذي یملکہ فیسوغ لہ أن یتصرف فیہ بالبیع والہبۃ والوقف، وأن یتصرف في المنفعۃ بأن یستوفیہا بنفسہ ، أو یملکہا لغیرہ فیؤجرہا ، وکذا یسوغ لہ أن یعیر العین وأن یوصي بمنفعتہا ۔ وفي ’’مرشد الحیران ‘‘ : الملک التام من شأنہ أن یتصرف بہ المالک تصرفاً مطلقًا فیما یملکہ عینًا ومنفعۃً واستغلالا ، فینتفع بالعین المملوکۃ وبغلّتہا وثمارہا ونتاجہا ، ویتصرف في عینہا بجمیع التصرفات الجائزۃ ‘‘ ۔ (معجم المصطلحات والالفاظ الفقہیۃ :ص/۳۵۱،۳۵۲)