ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
پر آپ کا سکوت چہ معنیٰ دارد؟ ؎ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کیسا پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں جب کہ کمالِ دیانت کا تقاضہ تو یہ تھا کہ یہاں بھی آپ حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کے فتوی کا غلط وغیر معتبر ہونا تحریرکرتے، اور یہ لکھ دیتے کہ دارالعلوم دیوبند کایہ فتویٰ اپنی اصل ودلیل کے اعتبار سے درست نہیں ہے،جیسا کہ آپ نے علماء عرب کے فتاویٰ سے متعلق لکھا :…’’ ان سے ہم کو اتفاق نہیں‘‘… اخیر میں ادباً عرض ہے کہ ہمیشہ کسی بھی صورت کا حکم متعین کرتے وقت یہ باتیں پیش نظررہنی چاہیے: (۱) {إذا اجتمع الحلال والحرام ، أو المحرم والمبیح ، غلب الحرام والمحرم} ۔ (اشباہ) (قواعد الفقہ :ص/۵۵ ، رقم المادۃ :۱۴) (۲) {ان الذرائع تعد وسائل إلی المقاصد ، وحکمہا حکم مقاصدہا ، من حیث التحریم والوجوب ، والکراہۃ ، والندب ، والإباحۃ ، أي أن الوسیلۃ أو الذریعۃ تکون محرمۃ إذا کان المقصد محرما ، وتکون واجبۃ إذا کان المقصد واجباً} ۔ (المقاصد الشرعیۃ للخادمي :ص/۴۶) (۳) عن أبي سعید عبد السلام الملقّب بسُحنُون إمام المالکیّۃ وصاحب المدوّنۃ أنہ قال : ’’ أشقی الناس من باع أخرتہ بدنیاہ ، وأشقی منہ من باع آخرتہ بدنیا غیرہ ‘‘ ۔ قال الحافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ تعالی بعد نقل ہذا القول : ’’ ففکّرتُ فیمن باع آخرتہ بدنیا غیرہ ، فوجدتُہ المفتي یأتیہ الرجل قد حنِث في امرأتہ ورقیقہ فیقول لہ : ’’ لا شيء علیک ، فیذہبُ