ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
اورہزاروں لوگوں کو اپنا روزگار چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کرنی پڑی، مزید برآں اس طرح کی بیع کی اجازت دینے میں جوا، قماراورسٹہ کا دروازہ کھل جانے کا بھی اندیشۂ قوی ہے، حالانکہ ہمارے فقہاء کرام ان جائز اور مباح امور کو بھی منع کرتے ہیں جو مؤدی الی الممنوع ہوں، جیسا کہ علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: {ما کان سببًا لمحظور فہو محظور} (۵/۲۲۳)، علامہ کاسانی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:{ما أدی إلی الحرام فہو حرام} (۱/۶۶۸)، {الوسیلۃ إلی الحرام حرامٌ}(۶/۴۸۸)،اور صاحبِ ہدایہ علامہ مرغینانی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: {الأصل أن سبب الحرام حرامٌ} (۴/۴۶۶) ۔ ویسے بھی مسلک احناف کا طرۂ امتیاز ہی مبنی بر احتیاط ہے ۔ فتأمل (حذیفہ وستانوی)} محترم ومکر جناب مفتی محمد صالح صاحب … السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ! امید کہ مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے، ۱- بندے کے مضمون’’ بعض ناجائز تجارتی صورتیں‘‘ کی جن دو صورتوں پر آں محترم کو اشکال تھا، اس کے رفع کے سلسلے میں اس سے پہلے آپ کو ایک تحریر ارسال کرچکا ہوں، مگر اس کے باوجود آپ مطمئن نہیں ہوئے، اور آپ نے ایک دوسری تحریر ارسال کی، جس میں آپ یہ فرمارہے ہیں کہ: ’’مضمون میں بیع عقار کی جو صورت قلمبند کی گئی جب وہ وعدۂ بیع ہے، تو بیعِ عقار کی اس صورت کے ناجائز ہونے پر جو وجوہات ذکر کی گئیں، ان کے تحریر کرنے کی ضرورت نہیں تھی‘‘ جواباً عرض ہے کہ بیع عقار کی اس صورت کے عدمِ جواز میں جو وجوہات ذکر کی گئیں ، وہ عدمِ تکمیلِ وعدۂ بیع کی صورت میں’’ غررِ انفساخِ عقد‘‘ اور ’’ ربح ما لم یضمن‘‘ ہیں، اور جس طرح یہ وجوہات بیع اشیاء منقولہ قبل القبض کے عدمِ جواز کی علت ہیں، اسی طرح وعدۂ بیع میں محض وعدے کی بنا پر تھرڈ پارٹی کے ہاتھوں اس عقار کو فروخت کرنے