ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
اعلان کرتے ہیں کہ جو شخص مثلاً دس روپیہ کا ٹکٹ یک مشت خریدے گا وہ اپنے اس ٹکٹ کے ذریعہ عام لوگوں کی طرح نمائش میں بھی داخل ہوسکے گا اور ان ٹکٹوں پر بذریعہ قرعہ اندازی کچھ انعام مقرر ہوتے ہیں جس کا نمبر نکل آئے اس کو وہ انعام بھی دیا جاتا ہے ، یہ صورت صریح قمار سے تو نکل جاتی ہے کیوں کہ ٹکٹ خریدنے والے کواس ٹکٹ کا معاوضہ بصورت داخلہ نمائش میں مل جاتا ہے۔اور حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں اگر کوئی ادارہ ایسے انعامی مقابلہ میں شریک ہونے والوں پر کوئی فیس داخلہ مقرر نہ کرے اور پھر بھی انعام تقسیم کرے تو یہ قمار نہ ہوگا اور اس میں شرکت جائز ہوگی اور حاصل شدہ رقم کو اپنے صرف میں لانا جائز ہوگا (کفایت المفتی:۹/۲۳۰) اور حضرت مفتی نظام الدین صاحب سابق مفتی اعظم دار العلوم دیوبند ایک ایسے ہی سوال سے متعلق لکھتے ہیں اگر وہ سیٹھ بنڈل سوت کے بازار کے عام شرح کے مطابق فروخت کرتا ہے اور ہزار بنڈل فروخت ہونے تک ہر بنڈل میں ایک پرچی رکھدیتا ہے اور اس ہزار پرچیوں میںسے صرف ایک پرچی پر سائیکل لکھدیتا ہے اور جس کے بنڈل میں وہ پرچی نکل آتی ہے اس کو خود بطور انعام بغیر کسی قیمت کے دیدیتا ہے تو یہ اس سیٹھ کا ایک قسم کا اپنے گاہکوں کو انعام دینا ہے اور اپنے مال کی نکاسی کے لیے ترغیب دینا ہے اس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ (فتاوی نظامیہ اوندرویہ:۲/۳۴۱) جناب نے فتاویٰ دار العلوم :۱۴/۵۰۶ کا جو فتویٰ تائید میں پیش کیا ہے تو عرض یہ ہے کہ اس کے جواب میں پیش کردہ حدیث صورت مسئلہ پر منطبق نہیں ہوتی، اس لیے کہ انعامی تجارتی اسکیموں میں انعام مشروط نہیں ہوتا بلکہ صرف موعود ہوتا ہے اور وعدہ وشرط میں فرق بالکل ظاہر ہے۔ محمد صالح سہارنپوری…۱۱/۳/۱۴۳۳ھ