ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
البیع جائز وان النظر لطلحۃ لأنہ ابتاع مغیباً ۔رواہ البیہقی باسناد حسن۔ حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ اس حدیث پر لکھتے ہیں : وقد مر فی باب خیار الرویۃ عن الموفق فی المغنی ان ہذا اتفاق منہم علی صحۃ البیع … وہو یقتضی جواز بیع العقار قبل القبض فان عثمان رضی اللہ عنہ باع أرضا لہ بالکوفۃ ولم یرہا وہو ظاہر فی أنہ باعہا ولم یقبضہا فإن القبض یستلزم الرویۃ حتما فإن قیل لعلہ قبضہا بواسطۃ الوکیل قلنا فرؤیتہ أیضا رؤیتہٗ وقدقال بعتک ما لم أرہ فبطل احتمال رؤیتہٖ بواسطۃ الوکیل وقبضہ بقبضہ فافہم فإن أباحنیفۃ وأصحابہ ینالون الإیمان من الثریّا۔ (اعلاء السنن :۱۴/۲۲۹) جناب نے انعامی اسکیم سے متعلق علماء عرب کے جو فتاویٰ نقل فرمائے ہیں ان سے ہم کو اتفاق نہیں، اس لیے کہ اس صورت پر قمار کی تعریف صادق نہیں آتی، چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں : القمار من القمر الذی یزداد تارۃ وینقص أخری ، وسمی القمار قمارا لأن کل واحد من المقامر ین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ ویجوز أن یستفید مال صاحبہ وہو حرام بالنص ولا کذلک إذا شرط من جانب واحد الخ۔(شامی :۵/۲۵۸، نعمانیہ)اسی وجہ سے ہمارے اکابر ومشایخ کے فتاویٰ میں بھی جواز ہی کو اختیار کیا گیا ہے، چنانچہ امداد الفتاویٰ:۳/۲۲ پر ہے ، بیع کے بعد کچھ زائد دیدینا ۔ (سوال) بعد سوداخریدنے کے جو بائع بچوں یا بڑوں کو کچھ دیدیتا ہے جس کو رونگا کہتے ہیں وہ مطلقاً ناجائز ہے یا بلا اجبار درست ہے؟ (الجواب) یہ زیادۃ فی المبیع ہے اور حسب تصریح فقہاء مباح ہے بشرط تراضی۔ اور حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب جواہر الفقہ :۲/۳۵۱، مطبوعہ دار العلوم کراچی پر لکھتے ہیں : چند سال سے کراچی لاہور وغیرہ میں دیکھنے میں آیا ہے کہ مختلف نمائشوں کے اندر داخلہ کاٹکٹ ہوتا ہے اور نمائش کے منتظمین یہ