ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
مقبوضہ کی بیع کی ممانعت بتصریح احادیثِ مبارکہ ثابت ہے‘‘، جب کہ ماقبل کی تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ وہ چیز غیر مملوکہ نہیں ہے ، بلکہ مشتری کی ملک اس پر ثابت ہوچکی ہے، اور وہ اپنی مملوکہ چیز کو بیچ رہا ہے، رہا غیر مقبوضہ کی بیع سے متعلق کچھ لکھنا تو حقیر اس کی وضاحت اپنے پہلے مضمون میں حضراتِ فقہاء کرام کی عبارات کی روشنی میں کرچکا ہے ، کہ حضرات شیخین رحمہما اللہ کے نزدیک غیر منقولہ چیز کا قبضہ سے قبل بیچنا جائز ہے اور احادیث ممانعت اموال پر محمول ہیں (اعلاء السنن: ۱۴/۲۲۸)اور غیر منقول چیز (زمین ، مکان وغیرہ) کے قبل القبض بیع کے جواز کی نقلی دلیل امیر المؤمنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا وہ واقعہ ہے جس کو امام بیہقی نے اسناد حسن کے ساتھ نقل کیا ہے، کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی اپنی ایک زمین حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو ان کی مدینہ منورہ کی زمین کے عوض بیچی اور فرمایا میں نے تم کو ایسی چیز بیچدی ہے جس کو میں نے دیکھا نہیں (یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنے لیے خیار رؤیت ثابت کرکے بیع فسخ کرنا چاہتے تھے اس لیے کہ کچھ لوگوں نے آپ سے کہہ دیا تھا کہ اس بیع میں آپ نقصان میں رہے) اس پر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : دیکھنے کا اختیار مجھ کو ہے ، اس لیے کہ میں دیکھے بغیر خرید رہا ہوں اور جو آپ مجھ سے خرید رہے ہیں وہ آپ کی دیکھی ہوئی ہے ، اختلاف ہوجانے پر ان دونوں حضرات نے اپنا فیصل حضرت جبیر ابن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنایا، تو انہوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف فیصلہ دیا اور فرمایا کہ یہ بیع درست ہوگئی، اور دیکھنے کا اختیار حضرت طلحہ کو ہے ، اس لیے کہ وہ دیکھے بغیر خریدرہے تھے، ومما یدل لقول أبی حنیفۃ رحمہ اللہ ما رواہ ابن ابی ملیکۃ ان عثمان رضی اللہ عنہ ابتاع من طلحۃ أرضا بالمدینۃ ناقلۃ بأرض لہ بالکوفۃ فقال عثمان بعتک مالم أرہ فقال طلحۃ انما النظر لی لأنی ابتعت مغیبا وأنت قد رأیت ما ابتعتَ فتحاکماإلی جبیر بن مطعم فقضی علی عثمان ان