ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
وجہ یہ ہے کہ بیعانہ دیتے وقت عرفاً ایجاب وقبول کا تحقق ہوجاتا ہے، جو انعقاد کے لیے کافی ہے ، کذلک ینعقد لو اقتصر المشتری علی دفع عربون لأنہ جزء من الثمن ۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ :۴/۲۹۳۸)قبول کے لیے شرعاً زبان سے لفظ ’’قبلتُ‘‘ ہی کہنا ضروری نہیں ہے، جیسا کہ حضرات فقہاء کرام نے بیع تعاطی کے ذیل میں اس کو تفصیل سے بیان کیا ہے، چنانچہ فتاویٰ محمودیہ (۱۶/۱۶۸، جدید) پر ہے (بیعانہ لینے سے بیع) سوال(۷۸۴۳) عمر نے زید کو ایک مکان کا چوتھائی حصہ چار سو روپیہ میں فروخت کردیا اور مبلغ سو روپیہ بطورِ بیعانہ لے کر یہ تحریر لکھدی کہ میں مبلغ سو روپئے بطورِ بیعانہ اب لیتا ہوں اور مبلغ تین سور روپئے رجسٹری کے وقت لوں گا، زید نے جب عمر بائع سے رجسٹری کا تقاضا کیا تو عمر بائع رجسٹری کو ٹالتا رہا اور کچھ عرصہ بعد مکان پر جبراً اپنا قبضہ کرلیا اور جو مبلغ سوروپئے بطورِ بیعانہ لیا تھا اس کے واپس دینے سے بھی انکار کردیا اب یہ باتیں دریافت طلب ہیں (۱) کیا یہ بیع صحیح ہوگئی یا نہیں؟ (۲) اگر صحیح ہوگئی تو بائع کو مکان پر جبراً بلا رضامندی زید (مشتری) قبضہ کرلینا جائز ہے یانہیں؟ (۳) کیا بائع عمر کو جبراً بیع کے فسخ کا اختیار ہے؟(۴) اگر صحیح نہیں ہوئی ، یا بائع کو جبراً فسخ بیع کا اختیار ہو تو مبلغ سور وپیہ بائع کے ذمہ ضروری ہے یا نہیں؟ (۵) مشتری کو اپنے اس روپیہ کے واپس لینے کا حق ہے یا نہیں جو اس نے بطورِ بیعانہ بائع کو دیئے تھے؟ (الجواب) (۱) صحیح ہوگئی (۲) نہیں (۳) نہیں (۴) بیع تھی اب اگر بائع اس کو فسخ کرنا چاہے تو مشتری کی رضامندی سے مبلغ سو روپئے واپس دیکر فسخ کرسکتا ہے(۵) اگر بائع مکان نہیں دیتا اور جھگڑا کرتا ہے تو مشتری کو حق حاصل ہے کہ اپنا روپیہ واپس لے لے ۔اور فتاویٰ رحیمیہ(۹/۲۲۴، جدید) میں ہے(سوال ۲۶۸) میں مکان زمین کی دلالی کا کام کرتا ہوں ایک مکان کے چار بھائی اور چار بہنیں وارث ہیں ان سب نے اپنا مکان بیچنے کے لیے مجھ سے کہا ان کے کہنے کی وجہ سے میں نے خریدار تلاش کیا اور مکان بیچنے کے سلسلے