ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
اصل مضمون میں بیع عقار کے ناجائز ہونے پر جتنی وجوہ بھی ذکر فرمائی ہیں ان سب کی تحریر کرنے کی جناب کو ضرورت ہی نہیں تھی، صرف یہ لکھدینا کافی تھا ’’ کہ چونکہ ابھی عاقدین کے درمیان بیع کا آئندہ کے لیے صرف وعدہ ہوا ہے بیع نہیں ہوئی ایجاب وقبول نہیں ہوا، اس لیے مشتری اس زمین کا ابھی مالک نہیں ہوا اور جب وہ زمین کا مالک نہیں ہوا تو اس کے لیے دوسرے کو بیچنے کی بھی اجازت نہیں‘‘ جب کہ آپ کے اس مضمون کو پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ بیع کو تام ومکمل مان رہے ہیں لیکن چونکہ قبضہ سے قبل خطرہ ہے کہ مبیع ضائع ہوجائے اس لیے غرر ودھوکہ سے بچنے کے لیے مشتری کو آگے کسی دوسرے کو بیچنے کی اجازت نہیں دیتے جب تک مکمل ادائیگی ہوکر بیعنامہ کی رجسٹری نہ ہوجائے ، حالانکہ صحتِ بیع کے لیے شریعت نے صرف عاقدین کی رضامندی اور ایجاب وقبول کو ضروری قرار دیا ہے، بیعنامہ کے رجسٹری کرنے پر یا سرکاری کاغذ۱ت میں اندراج پر بیع کی تکمیل کو موقوف نہیں رکھا ، البیع ہو مبادلۃ المال بالمال بالتراضی ویلزم بإیجاب وقبول۔ (کنز الدقائق: ص/۲۲۷) رجسٹری وغیرہ کا مقصد صرف یہ ہے کہ آئندہ اگراس زمین سے متعلق کوئی قانونی خطرہ پیش آتا ہے تو اس بیعنامہ کے ذریعہ قانوناً اس کا تدارک کیا جاسکے۔…نیز ایک بات یہ بھی قابلِ غور ہے کہ سودا مکمل ہوجانے کے بعد بیعانہ دینے سے بیع مکمل ہوجاتی ہے، یا وہ صرف وعدہ ٔ بیع ہی رہتا ہے ، تو آپ اور مولانا حذیفہ وستانوی اس کو وعدۂ بیع کے درجہ میں رکھتے ہیں اور بیع مکمل اس وقت قرار دیتے ہیں جب مشتری باقی کل رقم ادا کرکے اپنے نام زمین کی رجسٹری کراتا ہے، اس لیے آپ حضرات رجسٹری سے قبل مشتری کی ملک نہیں مانتے اوراس کو کسی دوسرے کو بیچنے کی اجازت نہیں دیتے، جب کہ اس کو محض وعدۂ بیع قرار دینا حضرات اکابر رحمہم اللہ کی تصریحات کے بالکل خلاف ہے ، اس لیے کہ وہ حضرات سودا مکمل ہوجانے کے بعد محض بیعانہ دیدینے سے ہی انعقاد بیع کے قائل ہیں اور انعقاد بیع کی