ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
کی اسکیموں کے پیچھے قمار کی روح ضرور کار فرما ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ عصرِ حاضر کے وہ بڑے بڑے فقہاء جن کو اللہ پاک نے دورِ حاضر کی جدید معیشت سے پیدا ہونے والے نِت نئے مسائل پر احکامِ شرعیہ کے مرتب کرنے پر خاص مہارت اور یدِ طولیٰ کی نعمت سے مالا مال فرمایا ہے، وہ اس طرح کی انعامی اسکیموں کے ذریعے خرید وفروخت کو منع فرماتے ہیں، جیسا کہ دکتور یوسف قرضاوی دامت برکاتہم فرماتے ہیں: ’’ والنوع الآخر ہو الذي یأخذ الإنسان فیہ (الکوبون) مقابل سلعۃ اشتراہا من متجر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وأنا أؤید الشیخ ابن باز فیما أفتی بہ ، وقد کنت أمیل من قبل إلی إجازتہ مع الکراہۃ ثم ترجح لي الآن المیل إلی تحریمہ ‘‘ اہـ ۔ (فتاوی معاصرۃ للدکتور یوسف القرضاوي :۳/۳۸۶ ، ۳۸۷ ، ط :دار القلم کویت) اسی طرح دکتور مصطفی الزرقاء فرماتے ہیں: ’’ والتي أصبح المشترون من عند ہذا التاجر لأخذ ہذہ القسائم ، فلا أراہا إلا من قبیل الیانصیب التجاري الذي ہو الیوم في نظر علماء الشریعۃ ضرب من المقامرۃ محرم یأثم فیہ الطرفان - التاجر والزبون ‘‘۔ (فتاوی مصطفی الزرقاء : ص/۵۱۴، حکم الجوائز التي معطیہا التجار للمشترین ، دار القلم دمشق) اسی طرح جدید فقہی مسائل میں ’’گاہکوں کے لیے ترغیبی انعام ‘‘ عنوان کے تحت فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم تحریر فرماتے ہیں:’’(جواب : ’’سوال ۱۸‘‘- چوں کہ اس صورت میں مبیع اور ثمن متعین ہے اور ہر خریدار کواپنی مبیع حاصل ہوجاتی ہے، انعام کمپنی اپنے منافع میں سے دیتی ہے، اس لیے یہ صورت جائز ودرست ہوگی، اگر فریقین میں سے کسی کو ملنے والا عوض مستور العاقبہ اور نا معلوم ہوتا، کسی کو مبیع ملتی اور کوئی محروم ہوجاتا تو یہ صورت قمار کی ہوتی ،