ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
ہونے پر مشتری پوری رقم ادا کرتا ہے، اور بائع اپنی زمین بیع نامہ کے ذریعے مشتری کے نام رجسٹری کردیتا ہے،جیسا کہ زمین کی لین دین کا کاروبار کرنے والے حضرات کے بیان سے معلوم ہوا، اور یہی وجہ ہے کہ پوری رقم کی وصولیابی اور رجسٹری سے پہلے اگر مشتری یہ زمین کسی اور کے نام منتقل کرنا چاہے ، تو نہیں کرسکتا ، آپ محترم نے اس صورت کے بابت مزید جتنی باتیں تحریر فرمائی ہیں، وہ سب بھی اسی مفروضے پر قائم ہیں،کہ آپ اس صورت کو بیعِ تام قرار دے رہے ہیں، اس لیے ان کے متعلق کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ دامت برکاتہم اوربندہ ٔ ناچیز کے درمیان اصل منشأ خلاف یہی ہے کہ مضمون میں بیعِ عقار کی جو صورت بیان کی گئی آپ اسے بیع تام قرار دے رہے ہیں، اوربندۂ ناچیز اسے وعدۂ بیع کہہ رہا ہے، اس صورت کے بیع تام ہونے پر وہ تمام احکام اس پر مرتب ہوں گے، جو آپ کی تحریر کردہ عبارتوں سے ثابت ہوتے ہیں، اور محض وعدۂ بیع ہونے پر حکم وہی ہوگا جو مضمون میں ذکر کیا گیا، کیوں کہ غیر مملوکہ وغیر مقبوضہ کی بیع کی ممانعت بتصریحِ احادیثِ مبارکہ ثابت ہے۔ تجارتی انعامی اسکیموں کے عدمِ جواز پر آپ کو یہ اشکال ہے کہ چونکہ عام طور پر تجار حضرات اپنے سامان کو زیادہ سے زیادہ فروخت کرنے کے لیے انعامی اسکیمیں نکالتے ہیں، اورخریدار دکاندار کو جتنا روپیہ دیتا ہے ، اس کی رقم کا کوئی بھی حصہ داؤ پر نہیں لگتا، بلکہ دکاندار اس کی پوری رقم کا معاوضہ مبیع کی شکل میں حوالہ کردیتا ہے،- اس سلسلے میں یہ عرض ہے کہ اس طرح کی تجارتی انعامی اسکیموں پر گرچہ قمار کی وہ تعریف صادق نہیں آتی جو آپ نے فرمائی ہے، مگر اس سے انکاربھی نہیں کیا جاسکتا کہ اس طرح