ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
جصاص کے الفاظ میں احقاق بعض وانجاح بعض ، اس لیے یہ صورت قمار میں داخل نہیں، ماضی قریب کے علماء میں مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کی رائے بھی یہی ہے۔ یہ حکم تو مسئلہ کی ظاہری صورت کے اعتبار سے ہے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کاروبار کے اس طریقہ کے پیچھے ذہنی قمار ہی کار فرما ہے، اس لیے ایسے معاملہ کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے، اور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے خیال ہوتا ہے کہ اس میں کراہت کا پہلو ضرور ہے۔ ‘‘ (۴/۲۷۵ ، ۲۷۶ ، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند) اسی طرح مکمل ومدلل فتاویٰ دار العلوم میں ’’ قمار کی ایک صورت اور اس کا حکم ‘‘ عنوان کے تحت ایک استفتا ء اوراس کے جواب سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے کہ انعامی اسکیموں کے ذریعے خرید وفروخت قمار میں داخل ہے، ملاحظہ فرمائیں:’’ سوال(۹۶) : ایک تجارتی کمپنی نے اعلان شائع کیا ہے کہ جو شخص ہمارے یہاں سے تین روپیہ کی کتابیں خریدے گا، ہم ا س کو تین روپیہ کی کتابیں روانہ کریں گے اوراس کو پانچ سو روپئے بطور انعام کے اس طرح دیں گے کہ تمام خریداروں کے ناموں کو جمع کرکے قرعہ ڈالیں گے، جس خریدار کا نام قرعہ میں برآمد ہوگا اس کو وہ روپیہ انعام کے طور پر علاوہ ان کتابوں کے دیا جائے گا، یہ صورت جائز ہے یانہیں؟‘‘ الجواب : یہ صورت خریدوفروخت کی جائز نہیں ہے، کیوں کہ حدیث شریف میں ہے: ’’ نہی عن بیع وشرط‘‘ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع میں کوئی شرط خلافِ مقتضائے عقد کرنے سے منع فرمایا ہے، علاوہ بریں یہ ایک صورت قمار کی ہے جو کہ حرام ہے۔فقط‘‘ (فتاویٰ دار العلوم:۱۴/۵۰۶ )نوٹ : فتاویٰ عثمانی :۳/۲۵۵، پر جو مفتی عبد الواحد کا مضمون ہے اس سے حضرت