ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
شرعیۃ القرعۃ فی الجملۃ بل نثبتہا شرعاً لتطییب القلوب ودفع الأحقاد والضغائن کما فعل علیہ الصلاۃ والسلام للسفر بنسائہ فإنہ لما کان سفرہ بکل من شاء منہن جائزا إلا أنہ ربما یتسارع الضغائن إلی من یخصہا من بینہن ، فکان الإقراع لتطییب قلوبہن ، وکذا اقراع القاضی فی الانصباء المستحقۃ والبدایۃ بتحلیف أحد المتخاصمین إنما ہو لدفع ما ذکرنا من تہمۃ المیل ، والحاصل أنہا انما تستعمل فی المواضع التی یجوز ترکہا فیہا لما ذکرنا من المعنی ومنہ استہام زکریا علیہ السلام معہم علی کفالۃ مریم علیہا السلام کان لذلک الخ ۔ (فتح القدیر :۴/۴۴۸، بیروت) البتہ شرط یہ ہے کہ مبیع کو ثمن مثل پر بائع دے رہا ہو اگر بائع نے مبیع کی قیمت ثمن مثل سے بڑھادی مثلاً ایک چیز بازار میں ایک ہزار روپئے کی ہے اور بائع اس کی قیمت بارہ سو روپیہ لے کر یہ کہتا ہے کہ قرعہ اندازی کے ذریعہ اس پر انعام بھی دیا جائے گا ، تو یہ جائز نہیں ، اس لیے کہ اس میں ایک ہزار روپیہ کی تو مبیع ہوگئی ہے، لیکن باقی دو سو روپیہ داؤ پر لگائے جارہے ہیں اور ان کے مقابلے پر جو انعام ہے وہ معلق علی الخطر ہے اور یہ قمار ہے، لیکن اس سے یہ سمجھنا کہ جس معاملہ میں بھی قرعہ اندازی قرعہ اندازی کی جائے وہ جوا ہے یا وہ معاملہ حرام ہے ، ایسا نہیں ہے ، جوا اس وقت ہوگا جب ایک طرف سے ادائیگی یقینی ہو اور دوسری طرف سے معلق علی الخطر ہو۔ آنجناب نے اس مسئلہ سے متعلق جو فتاویٰ عثمانی جلد سوم ص/۲۵۵ کا حوالہ دیا ہے وہ مضمون مولانا مفتی عبد الواحد صاحب کا ہے جس سے خود حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب متفق نہیں۔‘‘