ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2017 |
اكستان |
|
قومی ایکشن پلان یہ تاثر دیتا ہے کہ مذہبی جماعتیں ہی پاکستان میں دہشت گردی کی بنیاد ہیں جبکہ ہماری سیاسی و نظریاتی تفریق کا سبب ہمارا برسر اقتدار طبقہ ہے جس نے ہمارے معاشرے کو لبرل، سیکولر، روشن خیال اور قوم پرست گروپوں میں تقسیم کر رکھا ہے، مذہبی طبقات نظرانداز ہونے کے سبب نمایاں سیاسی مقام نہیں رکھتے اور نہ ہی حکمرانی سے متعلق معاملات یا پالیسی سازی کے عمل میں ان کا کوئی عمل دخل ہے، وہ تو بذاتِ خود زیادتی کا شکار ہیں، ہمارے عوام انہیں ووٹ نہیں دیتے لیکن اِس کے باوجود اِس طبقے کو ملک میں دہشت گردی کے فروغ کا سبب سمجھنے سے اپنے گناہوں کو چھپانا مقصود ہے۔ لبرل اور سیکولر عناصر ملکی معاملات سے مذہب کو الگ کر دینا چاہتے ہیں کیونکہ اُن کی دانست میں انسانی بقاء کا محور اللہ تعالیٰ کی ذات کی بجائے ترقی پسندانہ نظام ہے اور شخصی خودمختاری کا قائل ہے، اوّلیت اللہ تعالیٰ کی ذات کو نہیں بلکہ انسان کو حاصل ہے بنگلہ دیش اس امر کی واضح مثال ہے۔ لیکن پاکستان کا معاملہ اس سے بہت مختلف ہے خدانخواستہ اگر ایسی صورتِ حال پیدا ہوئی تو پاکستان ایک طوفان میں گھر جائے گا، کچھ ایسی ہی صورتِ حال ١٩٦٥ئ/١٩٦٦ء میں انڈونیشیا کو درپیش تھی جب وہاںسوشلزم اور کیمونزم کی تبلیغ کی جارہی تھی جس کے خلاف وسیع پیمانے پراحتجاجی تحریک چلی اورخانہ جنگی شروع ہوئی جو ڈیڑھ ملین عوام کی موت کا سبب بنی اور پھر صدر سہارتو نے اقتدار سنبھال لیا، خدانخواستہ اگر ہم گرتی ہوئی صورتِ حال کا تدارک کرنے میں ناکام رہے تو ہمیں تباہ کن خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ پاکستان کوئی جزیرہ نہیں ہے، ہمارے پڑوس میں ایران اور افغانستان جیسے انقلابی ممالک ہیں جو خاموش نہیں بیٹھیں گے اور ہماری دینی جماعتوں کو صورتِ حال سے فائدہ اُٹھا کر قیامت برپا