ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2017 |
اكستان |
|
تشریح : حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے اِس حدیث میں رسول اللہ ۖ کے وضو کا جو طریقہ بتلایا ہے بلکہ عملاً کرکے دکھایا ہے یہی وضو کا افضل اورمسنون طریقہ ہے البتہ اِس میں کلی اور پانی سے ناک کی صفائی سے متعلق یہ نہیں بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے یہ کتنی دفعہ ١ کیا لیکن بعض دوسری روایتوں میں تین تین دفعہ کی تصریح ہے۔ آگے حدیث میں جو دورکعتیں خشوع وخضوع کے ساتھ پڑھنے کاذکر ہے یہ ضروری نہیں کہ وہ نفل ہی ہوں بلکہ اگر کسی کو مسنون طریقہ پر وضو کر کے کوئی فرض یا سنت نمازبھی ایسی نصیب ہوگئی جو حدیثِ نفس سے یعنی اِدھر اُدھر کے خیالات سے خالی رہی تو اِنشاء اللہ حدیث کی موعود مغفرت اُس کو بھی حاصل ہوگی۔ شارحینِ حدیث اور عارفین نے لکھا ہے کہ حدیث ِنفس یہ ہے کہ اِدھر اُدھر کا کوئی خیال ذہن میں آئے اور دل اُس میں مشغول ہوجائے لیکن اگر کوئی خطرہ دل میں گزرے اور دل اُس میں مشغول نہ ہو بلکہ اُس کو ہٹانے اور دفع کرنے کی کوشش کرے تو وہ مضر نہیں ہے اور یہ چیز کاملین کو بھی پیش آتی ہے۔وضو سے بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پینا سنت ہے : (١٤) عَنْ اَبِیْ حَیَّةَ قَالَ رَأَیْتُ عَلِیًّا تَوَضَّاَ فَغَسَلَ کَفَّیْہِ حَتّٰی اَنْقَاھُمَا ثُمَّ مَضْمَضَ ثَلٰثًا وَاسْتَنْشَقَ ثَلٰثًا وَغَسَلَ وَجْھَہ ثَلٰثًا وَ ذِرَاعَیْہِ ثَلٰثًا وَمَسَحَ بِرَأْسِہ مَرَّةً ثُمَّ غَسَلَ قَدَمَیْہِ اِلَی الْکَعْبَیْنِ ثُمَّ قَامَ فَاَخَذَ فَضْلَ طَہُوْرِہ فَشَرِبَہ وَھُوَ قَائِم ثُمَّ قَالَ اَحْبَبْتُ اَنْ اُرِیَکُمْ کَیْفَ کَانَ طُہُوْرُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ۖ ۔ ٢ ''ابو حیہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا آپ نے وضو اس طرح فرمایا پہلے اپنے دونوں ہاتھ اچھی طرح دھوئے یہاں تک کہ اُن کو خوب اچھی طرح صاف کر دیا پھر تین دفعہ کلی کی پھر تین دفعہ پانی ناک میں لے کر اُس کی صفائی کی پھر چہرے اور دونوں ہاتھوں کو تین تین دفعہ دھویا پھر سر کا مسح ایک دفعہ کیا پھر دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے اُس کے بعد آپ کھڑے ہوئے اور کھڑے ہی ------------------------------ ١ رواہ البغوی عن سفیان بن سلمة ، زجاجة المصابیح ٢ ترمذی شریف ابواب الطھارة رقم الحدیث ٤٨