ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2017 |
اكستان |
|
تو جبکہ احادیث ِصحیحہ سے یہ چیز ثابت ہے کہ آپ کی سواری براقِ برق رفتار کے ایک قدم کی سرعت ِحرکت تاحدِ بصر تھی تو پھر استقرار و قیام ہی جبکہ نہ ہوا تو اثر سے کیا واسطہ، نیز براق جنت کا گھوڑا ہونے کے باعث ظاہر ہے کہ کثافت و جرمیت ِدنیاوی سے بالکل پاک و صاف ہوگا اور یہ مشاہدہ ہے کہ ایک غیر اثر قبول کرنے والی چیز کے ساتھ مل کر دوسری چیز بھی اُسی کے اثر میں آجاتی ہے جیسا کہ لکڑی اور اُس کے ساتھ ملی ہوئی دوسری چیز پر بجلی کا اثر نہ کرنا عینی مشاہدہ ہے۔ نیز فرشتوں کا آسمان سے اُترنا اور چڑھنا، جنات و شیاطین کا بعض اوقات سمائِ دنیا تک جا کر لوٹنا احادیث سے ثابت نیز جبکہ حسب ِتصریحاتِ قرآنی حضرت آدم و حوا کا جنت سے ہبوط اور زمین پر نزول جو یقینا ان ہی طبقات سے ہو کر ہوا ہوگا مسلم، اور قومِ موسٰی پر آسمانوں سے مائدہ کا نزول جو یقینا اِسی راستہ سے ہوا ہوگا قابلِ تسلیم ہے تو پھر ان مشاہدات کے ہوتے ہوئے حضرت انور ۖ کا بجسدہ العنصری عروج ونزول کیوں محال اور خلافِ عقل معلوم ہو اور ساتھ ہی خدائے قدیر و تو انا اپنی قدرتِ کا ملہ سے اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بجسدہ العنصری آسمان پر زندہ اُٹھالے تو کیا استحالہ واستبعاد ہے ( اِنَّمَا اَمْرُہ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ )۔( سُورہ یٰس : ٨٢)معراجِ جسمانی کا ثبوت قرآنی تصریحات سے : آیت اسراء کو غور سے ملاحظہ فرمائیں تو اِس میں خود ایسے قرائن بلکہ صریح الفاظ موجود ہیںجن کے ہوتے ہوئے معراجِ جسمانی میں شک و شبہ کی گنجائش تک باقی نہیں رہتی۔ (١) ( سُبْحٰنَ الَّذِیْ) لفظ'' سبحان'' خود واقعہ کی عظمت و شان اور اُس کے امر عظیم ہونے کی طرف اشارہ ہے اور معراجِ روحانی کوئی امرِ عظیم و قابلِ تعجب چیز نہ تھی جیسا کہ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں۔ فَالتَّسْبِیْحُ اِنَّمَا یَکُوْنُ عِنْدَ الْاُمُوْرِ الْعِظَامِ فَلَوْکَانَ مَنَامًا لَمْ یَکُنْ فِیْہِ کَبِیْرُ شَیْئٍ وَلَمْ یَکُن مُّسْتَعْظَمًا ۔ (ابن کثیر ج ٦ ص ٤١) ''پس لفظِ تسبیح جزایں نیست ہوتا ہے اُمور عظام کے لیے، اگر معراج منامی ہوتی تو اُس میں کوئی شے تعجب افزا اور عظمت خیز نہ ہوتی۔''