ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2017 |
اكستان |
|
ارکانِ حج کی مشروعیت کا دُوسرا راز : دوم : سفر حج کی وضع بالکل سفر آخرت کی سی ہے اور مقصود یہ ہے کہ حجاج کو اعمالِ حج ادا کرنے سے مرنے کا وقت اورمرنے کے بعد پیش آنے والے واقعات یاد آجائیں مثلاً شروع سفر میں بال بچوں سے رخصت ہوتے وقت سکراتِ موت کے وقت اہل و عیال سے رخصت ہونے کو یاد کرو ۔ اور وطن سے باہر نکلتے وقت دنیا سے جدا ہونے کو یاد کرو۔ اور سواری پر سوار ہوتے وقت جنازہ کی چارپائی پر سوار ہونے کو یاد کرو ۔ اور احرام کا سفید کپڑا پہنتے وقت کفن میں لپٹنے کو یاد کرو ۔ اور پھر میقاتِ حج تک پہنچنے میں جنگل و بیابان قطع کرتے وقت اُس دُشوار گزار گھاٹی کے قطع کرنے کو یاد کرو جو دُنیا سے باہر نکل کر میقاتِ قیامت تک عالمِ برزخ یعنی قبر میں تم کو کاٹنی ہے۔ راستہ میں راہزنوں کے ہول و ہراس کے وقت منکر نکیر کے سوالات اور اُس بے کسی میں ہول وہراس کا خیال کرو۔ جنگلی درندوں سے قبر کے سانپ بچھو اور کیڑوں مکوڑوں کو یاد کرو۔ اور میدان میںرشتہ داروں اور عزیز واقارب سے علیحدہ تن تنہا رہ جانے کے وقت قبر کی تنہائی اور وحشت کو یاد کرو ۔ اور جس وقت چیخ چیخ کر لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ پڑھو تو زندہ ہونے اور قبروں سے اُٹھنے کے وقت اُس جواب کو یاد کرو جو اللہ تعالیٰ کی نداکے وقت میدانِ حشر میں حاضری کے لیے تم عرض کرو گے۔ غرض اسی طرح ہر عمل میں ایک عبرت اور معاملۂ آخرت کی یاددہانی ہے جس سے ہر شخص جس قدر بھی اُس میں قلب کی صفائی اور دین کی ضروریات کے خیال رکھنے کی وجہ سے استعداد ہوگی آگاہی حاصل کرسکتا ہے۔ (جاری ہے)