ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2017 |
اكستان |
|
(٥) ( ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی o فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی) ١ لفظ '' دَلّٰی''اور پھر قرب و نزدیکی حق جل مجدہ کو بقدر قلت ِبعد (قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی) کے ساتھ تعبیر فرمانا بھی اِسی بات کی دلیل ہے کہ قربت جسدی مراد ہے اِس لیے کہ تشبیہہ شئی محدود کے ساتھ شئی معین کی ہی ہو سکتی ہے (٦) ( فَاَوْحٰی اِلٰی عَبْدِہ مَا اَوْحٰی) ٢ آسمان پر تشریف لے جانے کے بعد بھی ''عبد'' کا لانا اِس کی صریح دلیل ہے کہ وہاں وحی الٰہی اور مکالمہ ربانی رُوح مع الجسد ہی سے ہوا۔ (٧) ( مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰے) ٣ نیز ''بصر'' کا لفظ بھی اِس کا قوی قرینہ ہے کہ یہ واقعہ بحالت ِبیداری ہی ہوا۔ غرض کلامِ پاک کی ان چند تصریحاتِ بالا سے یہ چیز نہایت واضح ہو جاتی ہے کہ حضور انور ۖ کو معراجِ جسمانی ہوئی نہ کہ صرف رُوحانی یا منامی۔معراجِ جسمانی کا ثبوت احادیث سے : فصیل واقعہ معراج شریف کے دیکھنے سے بھی جو احادیث ِصحیحہ میں وارد ہے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جو اَحوال و اِنکشافات معراج کے وقت ظہور پذیر ہوئے وہ تمام معراجِ جسمانی کے ساتھ چسپاں ہوتے ہیں محض رُوح کے ساتھ اُن کا تعلق صحیح نہیں معلوم ہوتا ہے مثلاً حضرت اُم ہانی کے دولت کدہ پر بحالت استراحت یکایک چھت کا پھٹ کر فرشتہ آنا اور آپ کو جگا کر مسجد ِحرام میں زمزم پر لے جاکر قلب مبارک کو مائِ زمزم سے دھو کر اُس کو حکمت ایمان و عرفانِ الٰہی سے بھرنا، براق پر سوار ہو کر معراج کو تشریف لے جانا اور درآنحالیکہ براق پر جسد ہی سوا رہو سکتا ہے محض رُوح کہ ایک لطیف وغیر مرئی چیز ہے گھوڑے پر کیسے سوار ہو سکتی ہے ؟ حضرت جبرئیل کا آنحضور ۖ کو لے کر آسمانوں پر چڑھنا کما جاء فی الحدیث ثُمَّ اَخَذَ بِیَدِی فَعَرَجَ بِیْ اِلَی السَّمَآئِ پھر آسمانوں پر انبیاء علیہ السلام سے سلام وکلام اور تقرب ِالٰہی کے بعد نمازوں کا فرض اور آپ کی استدعاء تخفیف وغیرہ وغیرہ یہ جملہ امور اِس بات کی صریح دلیل ہیں کہ یہ احوال بحالت ِبیداری جسمِ اطہر کے ساتھ پیش آئے جیسا کہ ابن کثیر میں ہے : ------------------------------ ١ سُورة النجم : ٨،٩ ٢ سُورة النجم : ١٠ ٣ سُورة النجم : ١٧