ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2017 |
اكستان |
|
''یہ معراج جسمِ کثیف کے ساتھ نہیں تھا بلکہ اعلیٰ درجہ کا کشف تھا اس کثیف بیداری سے یہ حالت زیادہ اصفی واجلٰی ہوتی ہے اوراِس قسم کے کشفوں میں مؤلف خود صاحب ِ تجربہ ہے الخ ۔'' ( ص ٤٧) '' یہ ہے پنجاب کے مدعی ٔ نبوت کی قرآن دانی اور دعویٔ محبت رسول کی حقیقت ''استحالات معراجِ جسمانی کی تردید : حالانکہ اگر عقلِ نارسا کی رہبری میں ہی اس مسئلہ پرغور فرمایا جائے اور واقعات و مشاہدات کو سامنے رکھا جائے تو یقینا ان فرضی توہمات کا جن اور سائنس و فلسفہ کا بھوت خود بخود اُن کے سر سے اُتر جائے لیکن جب ہی جبکہ اغراض و خواہشات ِ نفسانی سے الگ ہو کر محض تلاش ِحق مقصود ہو۔سرعت رفتار : حرکت کی سرعت و قلت ِرفتار چونکہ ایک اضافی چیز ہے جس کی کوئی حدو اِنتہا مقرر نہیں جیسا کہ آج ریل اور موٹر و طیاروں وغیرہ کی حرکت عینی مشاہدہ ہے کہ اگر ریل گاڑی ساٹھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی ہے تو موٹرکار تین سو میل فی گھنٹہ اور طیاروں کی اسٹیمی طاقت اس سے بھی زائد پر واز کر سکتی ہے نیز بقول حکمائے جدید بجلی ایک منٹ میں پانچ سو مرتبہ زمین کے گرد گھوم سکتی ہے اور بعض سیارے ایک ساعت میں آٹھ لاکھ اَسی ہزار میل حرکت کر سکتے ہیں نیز انسان کی حرکت شعائیہ نظر اُٹھا کر دیکھنے سے ایک آن میں ہزاروں میل آسمان تک بلکہ اگر سماوات حائل نہ ہوں تو اس سے بھی آگے پہنچ سکتی ہے۔ تو جو خدا آگ اور پانی اور بجلی میں یہ طاقت دے سکتا ہے کہ جس کے ذریعہ انسانی دماغ اِس درجہ سرعت رفتار پر قدرت حاصل کر لے توکیا اُس خدا کی قدرت سے یہ چیز بعید ہے کہ وہی اپنی قدرتِ کاملہ سے ایک جسمِ عنصری کو ایسے براق برق رفتار کی سواری سے چشم زدن میں کہیں سے کہیں پہنچا دے اور اتنی قلیل مدت میں سطح ارض سے گزر کر ملکوت وسماوات کی سیاحت کر کے واپس آجائے۔ درآنحالیکہ حضرت سلیمان پیغمبر علیہ السلام کے ارشاد سے آصف بن بر خیا کا آنکھ جھپکنے کے اندر بلقیس کے تخت کو اقصیٰ یمن سے اقصیٰ شام میں لا رکھنا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے تخت کامہینوں کی