ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2017 |
اكستان |
|
ترکی کے صدر نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان کے موقع پر خبردارکیا تھا کہ پاکستان کی سلامتی کو فتح اللہ گولن طرز کے خطرات کا سامنا ہے جس سے نمٹنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ واشنگٹن کے مشرق قریب کے بارے پالیسی ساز ادارے کے بقول ترکی بذاتِ خود بھی دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کا شکارہے اور پورا ملک اپنے آپ سے حالت جنگ میں ہے جس سے مذہبی اور نسلی طبقات کی تفریق گہری ہوتی جا رہی ہے صدر اُردگان کے حامی اور اُن کے مخالفین اِس تفریق کے اہم اسباب ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی سیاسی و نظریاتی تفریق اُلجھتی اور خطرناک ہوتی جا رہی ہے جو فوری تدارک کی متقاضی ہے۔ہماری نظریاتی تفریق اور نظریات سے عاری موجودہ نظام حکمرانی ان مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جو ایک خطرناک صورتِ حال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نظام حکومت منتخب کرنے کا اختیار دیا ہے اور جہاں تک اُس کی بنیاد کا تعلق ہے تو وہ'' قرآن و سنہ'' کے اصول ہیں۔ ارشاد ربانی کے تحت ١٩٧٣ء کے آئین میں ہمارے نظریہ حیات کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے : '' پاکستان کا نظامِ حکومت جمہوری ہوگا جس کی بنیاد قرآن و سنہ کے اصولوں پر ہو گی '' لیکن بدقسمتی سے ہم نے قرآن و سنہ کے اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے صرف جمہوریت کو ہی ترجیح دی ہے، نہ ماضی کی کسی حکومت کو نہ موجودہ حکومت کو اور نہ ہی متعدد مذہبی جماعتوں میں سے کسی کو یہ توفیق ہوئی ہے کہ وہ قوم کی نظریاتی شناخت کو محفوظ بنانے کی طرف توجہ دیتا۔ ہم اپنے بچوں کو مسلم شناخت دینے میں ناکام ہوئے ہیں کیونکہ ہمارا نظامِ تعلیم قرآن و سنہ کے اصولوں سے یکسر عاری ہے۔