ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2017 |
اكستان |
|
''نماز قائم کرو ،زکوة ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کو قرض ِ حسن دو اور جو کچھ تم خود اپنے نفع کے لیے آگے بھیج دوگے تو اللہ تعالیٰ کے یہاں اِس سے بہت بہتر اور اجر میں بہت بڑھا ہوا پاؤگے۔ '' اس آیت میں دو مَد ذکر کیے گئے ''زکوة'' اور اللہ تعالیٰ کو'' قرض ِحسن'' یعنی زکوة کے علاوہ عطیہ وغیرہ، اُس وقت زکوة کا نصاب نہیں مقرر ہوا کہ کتنی رقم پر زکوة واجب ہوگی اور کتنی واجب ہوگی اور مداتِ خرچ میں دو مد بہت اہم تھے : ٭ ایک غریب اور ضرورت مند مسلمانوں کی امداد۔ ٭ دوسری جو غلام مسلمان ہوجائیں اُن کو مالکوں سے خرید کر آزاد کر دینا۔ اُس وقت کا معمول یہ تھا کہ ذاتی خرچ میں کفایت سے کام لیا جاتا اور جو کچھ بچتاوہ اگر ضرورت مند کو دیا گیا تو زکوة اور غلام کی خریداری وغیرہ پر خرچ کیا گیا جہاں زکوة کی رقم نہیں لگ سکتی وہ اللہ کے لیے قرض، تقریبًا پندرہ سال تک یہی معمول رہا۔ جب آنحضرت ۖ مدینہ تشریف لے آئے اور مسلمانوں کو آزاد خود مختار زندگی گزارنے اور کا روبار کرنے کا موقع ملا تب زکوة کا نصاب مقرر کیا گیا کہ کم سے کم دو سو درہم (ساڑھے باون تولہ چاندی) کسی کے پاس اُس کی ضرورتوں سے فاضل ہو اور سال بھر رہے تو سال کے تمام پر اُس کا چالیسواں حصہ فقراء کو دیا جائے گا باقی رقم مالک رکھ سکتا ہے۔تعلیمی اور تعمیری مَدات : لیکن یہ زکوة و صدقہ فطر غریب فقراء اور ضرورت مند مسلمانوں کا مخصوص حصہ ہے، ملت کی دوسری ضرورتوں مثلاً مدرسین کی تنخواہوں، مدرسوں یا مسجدوں، مسافر خانوں، سڑکوں یا پلوں کی تعمیر یااگر مسلمانوں کی حکومت ہوتو سامانِ جنگ کی فراہمی وغیرہ پر زکوة اور صدقات کی رقم خرچ نہیں کی جا سکتی اب اگر حکومت کے معینہ مدات کی آمدنی اِن ضرورتوں کے لیے کافی نہ ہو تو اصحاب ِدولت پر فرض ہوگا