ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2017 |
اكستان |
|
شب ِمعراج ( جناب احسان دانش مرحوم ) گردوں پہ تھا اُس خاک کا چرچا شب معراج جاگا تھا مدینے کا نصیبا شب معراج اجمال تھا ''تفصیلِ صفاتی'' سے گریزاں کس جوش میں تھا ذات کا دریا شب معراج ہر سانس پہ کُھلتے تھے خلائوں میں دریچے ہر ذرۂ خاکی تھا ستارا شب معراج تھی عرش پہ انسان کے پاپوش کی آہٹ دُنیا کے محاصل میں تھی عقبیٰ شب معراج لمحات کے سانچوں میں سمٹ آئی تھیں صدیاں ''امروز'' تھا آئینۂ فردا شب معراج جلوے بھی نہ تھے عابد و معبود میں حائل بے واسطہ تھے بندہ و مولا شب معراج ہر سُو تھے خلائوں میں رواں کیف کے جھونکے تھی کہکشاں نُور کا دریا شب معراج خوش کام تھے اطراف و جوانب کے مناظر تھی لاکھ سویروں کا سویرا شب معراج پھولوں میں بڑھا رنگ ستاروں میں تجلّی بر آئی دو عالم کی تمنا شب معراج