ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2017 |
اكستان |
|
الشُّبُھَاتِ کَرَاعٍ یَرْعٰی حَوْلَ الْحِمٰی یُوْشِکُ اَنْ یُّوْقِعَہ اَلَا وَاِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِمًی اَلَا اِنَّ حِمَی اللّٰہِ فِیْ اَرْضِہِ مَحَارِمُہ اَلَا وَاِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَةً اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ کُلُّہ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہ اَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ۔ ١ ''جو حلال ہے وہ کھلا ہواہے ،وہ جو حرام ہے وہ کھلا ہوا ہے اِن دونوں کے درمیان کچھ ایسے معاملے ہیں جو مشتبہ ہیں جن کا حلال یا حرام ہونا ظاہر نہیں، پس جس شخص نے شبہ کی چیزوں سے پر ہیز کیا اُس نے اپنے دین اور آبرو کوبچالیا اور جو شخص شبہ کی چیزوں میں پڑ گیا وہ حرام ہی میں جا دھنسا جیسے کوئی چرواہا شاہی چرا گاہ کے آس پاس اپنے مویشی چرائے توخطرہ ہے کہ مویشی چرتے چرتے شاہی چراگاہ میں منہ ڈال بیٹھیں۔ یاد رکھو ! ہر بادشاہ کی مخصوص چراگاہ ہوتی ہے دیکھو شہنشاہ ِ حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ کی گویا مخصوص چراگاہ محارم ہیں۔یاد رکھو ! انسان کے بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہوتا ہے تو (جذباتِ) بدن کا عالَم بھی درست ہوجاتا ہے اور اگروہ خراب ہوجاتاہے توجسمانی( خواہشات اور جذبات کا سارا )عالَم برباد ہوجاتا ہے ۔یاد رکھو ! جسمِ انسان کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا وہ ہے جسے قلب کہا جاتا ہے (جو بشری جذبات پر حکمران ہے)۔''اکلِ حلال اور عبادات اور دُعا کی مقبولیت : رسو ل اللہ ۖ کا ارشاد ہے ایک شخص پردیسی اور دُور دراز سفر میں مارا مارا پھررہا ہے بال بکھرے ہوئے گرد سے اَٹے ہوئے وہ ہاتھوں کو آسمان کی طرف اُٹھاتا ہے اور پکارتا ہے یارب یارب مگر حالت یہ ہے کہ کھانا بھی حرام، پہننا بھی حرام، حرام ہی سے وہ پلا بڑھا ایسے شخص کی دُعا کیا قبول ہو۔ ٢حرام مال سے صدقہ : ارشادِ نبوی ہے ( علیہ الصلٰوة والسلام) مالِ حرام سے صدقہ کیا جائے تو وہ قبول نہیں ہوتا اس ------------------------------ ١ بخاری کتاب الایمان رقم الحدیث ٥٢ ٢ مشکوة کتاب البیوع رقم الحدیث ٢٧٦٠