ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2017 |
اكستان |
|
ہم چاہیں گے کہ اپنے قارئین کو بھی اِس تحریر سے مستفید ہونے کا موقع دیں اگرچہ اِس میں مذکور ہر بات سے ادارہ اتفاق نہ بھی رکھتا ہو۔ ٭ ٭٭ ''ہم بظاہر اپنے ہی آپ سے حالت ِجنگ میں ہیں کیونکہ یہ ہماری پراگندہ سوچ ہے جو ہمارے معاشرتی نظام میں گہری تفریق کا باعث ہے۔١٩٥٨ء میں جب خان آف قلات نے اپنے سیاسی حقوق کے مطالبات کیے تو اُن کے اِس احتجاج کو بغاوت کا نام دے کر اُن کے خلاف لشکرکشی کی گئی، اسی طرح بلوچستان کے دیگر قبائل کے خلاف فوج کشی کا یہ عمل پانچ مرتبہ دہرایا جا چکا ہے اور٢٠٠٥ء سے اب تک سوات، دیر، باجوڑ، وزیرستان اور فاٹا کے علاقوں میں عسکری قوت کے ذریعے سیاسی مسائل کو سلجھانے کی کوششیں کی جارہی ہیں کیونکہ ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہی احتجاج اگر پنجاب اور سندھ کے عوام سڑکیں بلاک کرکے دھرنے دے کر یا شہر و بازار بند کرکے کرتے ہیں تو اُن کے خلاف فوج استعمال نہیں کی جاتی جبکہ قبائل کے احتجاج کا طریقہ مختلف ہے کہ وہ ہتھیار اُٹھا کر پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں تو اسے بغاوت کے معنی پہنا دیے جاتے ہیں اور پھر اِن سے نپٹنے کے لیے بات چیت اور افہام و تفہیم کے تمام راستے بند کرکے فوجی طاقت استعمال کی جاتی ہے، یہی وہ اُلجھائو ہے جسے ہم سلجھا نہیں پا رہے ہیں۔ اتنا ہی کیا کم نہ تھا کہ حکومت نے مخالف طبقات کے خلاف پابندیاں لگانا شروع کر دیں جن کی تعداد اب درجن سے زائد ہو چکی ہے، انہیں کالعدم قرار دیتے ہوئے اُن سے مذاکرات اور بات چیت کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں ایسے عناصر اب ملک بھر میں پھیل کر خون خرابہ کررہے ہیں۔ یہ ابتر صورت ِحال نہ صرف ہمارے اعصاب پر سوار ہے بلکہ ہمارے دشمنوں کو ہماری قومی سلامتی کے خلاف سازشوں کے مواقع فراہم کرتی ہے۔