ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2017 |
اكستان |
|
کہ کالج الگ اور دینی مدرسہ الگ تاکہ دو مختلف سوچوں کے لوگ اِن ہی میں تیار ہو کر چلتے رہیں ہمیشہ اِسی طرح ٹکراؤ ہوتا رہے اور میں جب چاہوں اِن میں تصادم کراؤں جب چاہوں ان کو روک دوں تاکہ میرا اقتدار جو ہے اُس طرف یہ نہ دیکھ سکیں کرسی کی طرف یہ نہ دیکھیں اُس نے آکر سیاست اور مذہب کی تفریق کردی جس نے دین سیکھنا ہو تووہ اِدھر چلا جائے اور جس نے سیاست کرنی ہو یا کوئی اور دنیا کی تعلیم حاصل کرنی ہو وہ اِدھر آجائے تو یہ تفریق جو اُس نے کی بڑی کامیاب پالیسی اُس نے اپنے اعتبار سے بنائی ایسی کامیاب پالیسی کہ اب دو سو ڈھائی سو سال ہو گئے ہیں ابھی تک تو اُس کی کامیابی چل رہی ہے اس لیے کہ خود ہمارے اندر بہت سے مسلمان اُس کے ایجنٹ بن گئے ہیں ورنہ اُس کی پالیسی کو ناکام کرنا ایک دن کا کام ہے الحمد للہ کوئی مشکل چیز نہیں ہے مصیبت یہ ہے کہ ہم میں سے مسلمان ہی اُن کا تحفظ کر رہے ہیں اور اُن کے مقصد میں آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک کی ایک عورت سابق وزیرِ خارجہ ہے حنا ربانی غالباً اُس کا نام ہے اُس نے اپنے آبائی علاقے جنوبی پنجاب میں بہت زمینیں ہیں اُس کی ہزاروں ایکڑ ہیں میں نے سنا ہے وہاں اُس نے اخبارات میں بھی آیا تھا غیر ملکی سفراء کی دعوت کی تھی کافروں کی خاص طور پر امریکہ ، برطانیہ، فرانس ، جرمنی اور اُس میں پُر تکلف کھانے تو تھے ہی تھے اُس میں اس نے اپنے آباؤ اجداد کے وہ کارنامے بتائے جو اُنہوں نے انگریز کی وفاداری میں کیے کہ ہم ایسے ہیں ہم ایسے ہوئے ہیں ہم آپ کے ایسے وفادار ہیں میرے باپ نے یہ کیا میرے دادا نے یہ کیا میرے پڑدادا نے یہ کیا کیونکہ اُن کی خدمات کے صلہ میں یہ زمینیں گاؤں کے گاؤں الاٹ کیے تو اُس نے یہ چیزیں بتائیں،ایک مسلم ملک کی وزیرِ خارجہ کی پستی کا جب یہ عالم ہو گا تو وہاں اسلام کیسے پنپے گادینی قوتیں کیسے بڑھیں گی، اِس دور میں بہت خطرناک حالات ہوتے جا رہے ہیں اور مزید خطرات بڑھ رہے ہیں اور مسلمانوں کو آپس میں خطرناک لڑائی میں جھونکنے کی تیاریاں بالکل آخر ی مر حلے پر ہیں اس لیے ہمیں ہوش کے ناخن لینے ہیں اللہ سے مدد مانگنی ہے اور کوشش یہ کرنی ہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں میں جو دو فریق بنائے گئے ہیں اور دُوریاں پیدا کی جارہی ہیں اس کو کم سے کم کریں آپ دینی مدارس بھی قائم کریں آپ سکول کالج کی تعلیم