ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2017 |
اكستان |
|
(٢) ( اَسْرٰی) اسراء کا لفظ جس کے معنی چلنے اور سیر کرنے کے لیے ہیں بیداری کی حالت کے ساتھ ہی استعمال ہوتا ہے خواب یا مکاشفہ کے لیے نہیں جیسا کہ قرآنِ پاک میں متعدد جگہ وارد ہوا ہے۔ ( قَالُوْا یٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ لَنْ یَّصِلُوْا اِلَیْکَ فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ ) ١ ( فَاَسْرِ بِعِبٰدِیْ لَیْلًا اِِنَّکُمْ مُتَّبَعُوْنَ ) ٢ (٣) ( بِعَبْدِہ) لفظ'' عبد'' کا اطلاق جسد مع الروح پر آتا ہے محض رُوح کو عبد نہیں کہا جاتا اور قرآنِ پاک میں اسراء کی نسبت عبد کی طرف کی گئی ہے رُوحِ عبد کی طرف نہیں کی گئی ہے ارشاد ہے (اَسْرٰی بِعَبْدِہ) ابن کثیر میں ہے : فَاِنَّ الْعَبْدَ عِبَارَة عَنْ مَجْمُوْعِ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ ''تحقیق عبد عبارت ہے مجموعہ رُوح مع الجسد سے'' چنانچہ قرآنِ پاک میں جہاں کہیں لفظ عبد آیا ہے اُس سے رُوح مع الجسد ہی مراد لیا گیا ہے محض رُوح نہیں لی جا سکتی۔ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی ( وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا ) ٣ ( وَاذْکُرْعَبْدَنَا اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰی رَبَّہُ ) ٤ ( اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتَابَ ) ٥ ( نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہِ ) ٦ (اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَان )٧ ( کُوْنُوْا عِبَادً ا لِّیْ ) ٨ ( اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یَنْھٰی عَبْدًا ) ٩ وغیرہ وغیرہ تو اصطلاحِ قرآن کے موافق یہاں بھی'' عبد'' سے مراد رُوح مع الجسدہی ہو سکتی ہے نہ کہ محض رُوح (٤) ( لِنُُرِیَہ مِنْ اٰیٰتِنَا) ١٠ تاکہ دکھلادیں ہم اُس کو اپنی نشانیاں ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے ( وَمَاجَعَلْنَا الرُّئْ یَا الَّتِیْ اَرَیْنَاکَ اِلَّا فِتْْنَةً لِّلنَّاسِ) ١١ تو لوگوں کے لیے فتنہ وابتلاء محض کشفی و رُوحانی رؤیت نہیں ہوسکتی اور نہ ہوئی بلکہ وہ بجسدہ العنصری آسمانوں کی سیر اور حق تعالیٰ سے مکالمہ و مشاہدہ تھا جس کو سن کر اہلِ قریش نے انکار کیا تھا ورنہ منامی وکشفی معراج سے تو کوئی بھی نہیں انکار کر سکتا تھا اور نہ وہ ابتلاء و فتنہ کا محل تھا۔ ------------------------------ ١ سُورہ ھود : ٨١ ٢ سُورة الدخان : ٢٣ ٣ سُورة البقرة : ٢٣ ٤ سُورہ ص : ٤١ ٥ سُورة الکھف : ١ ٦ سُورة الفرقان : ١ ٧ سُورة الحجر : ٤٢ ٨ سُورہ ال عمران : ٧٩ ٩ سُورة العلق : ٩ ١٠ سُورہ الاسراء : ١ ١١ سُورہ بنی اسرائیل : ٦٠