ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2017 |
اكستان |
|
جوڑنے والے کس منطق کا سہارا لے رہے ہیں ! ؟ ؟ سیدھی بات ہے کہ دہشت گردی کی باگ ڈور غیر اسلامی طاقتوںکے ہاتھ میں ہے اُنہوںنے نان سٹیٹ ایکٹرز کی فوج ظفر موج بھرتی کر رکھی ہے۔ ان میں سے ایک ریمنڈ ڈیوس پکڑا گیا۔ دوسرا کل بھوشن سنگھ یادیو پکڑا گیا۔ ایک کرنل پروہت پکڑا گیا جس نے سمجھوتہ ایکسپریس کے پاکستانی مسافروں کو کوئلہ بنا دیا تھا۔ کیا ان دہشت گردوں کے نام مسلمانوں سے ملتے ہیں، کیاا ن کی شکلیں مسلمانوں سے ملتی ہیں ؟ اگر نہیں ملتیں تو ہم کیوں نہیںکہتے کہ دہشت گردی کا تعلق ہندو مت سے ہے،کیا ہم افغانیوں کا نام صرف اس لیے لیتے ہیں کہ ان کا کوئی خصم سائیں نہیں، اُن کے پیچھے آج کوئی غوری، ابدالی، غزنوی کھڑا نظر نہیں آتا۔ خدا را ! جب ایک جرمن لیڈر یہ مانتی ہیں کہ اسلام کا تعلق دہشت گردی سے نہیں تو ہم کیوں یہ ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کہ مسلمان ہی دہشت گرد ہیں، ہم کیوں مانتے ہیں کہ جماعت الا حرار کاتعلق اسلام سے ہے یا ٹی ٹی پی والے سچے ا ور پکے مسلمان تھے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اسلام دشمنوںنے ہمارے لوگوں کو ورغلا رکھا ہے، وہ پیسے کا لالچ دے کر ان سے دھماکے کرواتے ہیں۔ تو کیا اس کا جواب یہ نہیںہونا چاہیے کہ ہم بھی اپنے دشمنوں کو ورغلائیں اور انہیں پیسے کا لالچ دے کر ان ہی کے بھائی بندوں کے خلاف استعمال کریں۔ یہ تو ایک پراکسی جنگ ہے جس میں ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تو ہر روز سانحہ سیہون ہو گا، سانحہ داتا دربار ہو گا، سانحہ جامعہ نعیمیہ ہو گا اور سانحہ چیئرنگ کراس ہو گا