ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2017 |
اكستان |
|
ایک مرتبہ آقائے نامدار ۖ سے گفتگو ہو رہی تھی اُس وقت آپ کے دست ِمبارک میں ایک چھڑی تھی، فرمایا کہ اگر وہ اِس چھڑی میں سے بھی آدھا مانگے گا تو میں نہیں دُوں گا ١ رہی زمین تو یہ اللہ کی ہے، انبیاء زمین لو گوں کو دینے کے لیے نہیں آئے یہ خدا ہی کی میراث ہے۔ حاصل یہ کہ یہ سرا سر جھو ٹے تھے اِن لوگوں کا مطمحِ نظر صرف دُنیا تھی، نبوت آقائے نامدار ۖ پر ختم ہوئی آپ کے بعد نبوت کادعوی کرنے والا جھوٹا ہے۔ آقائے نامدار ۖ کے وصال کے بعد پانچ اور آدمیوں نے بھی نبوت کا دعوی کیا، آقائے نامدار ۖ کی طرح صحابہ کرام نے بھی اُن سے کوئی دلیل نہیں مانگی کیونکہ صحابہ کرام کو اُن کے دجل وکذب اور سر ور ِ عالم ۖ کی ختم ِنبوت میں ذرّہ برابر تردّد نہ تھا۔ در اصل ختم ِنبوت کا مسئلہ اِس قدر واضح اور مُبرھن ٢ ہے کہ اُمت میں آج تک کسی بھی آدمی کو شبہ نہیں پڑا، اِس مسئلہ پر شیعہ سنی وغیرہ سب ہی متحد چلے آرہے ہیں، قرآنِ کریم کی آیات اور سینکڑوں احادیث اِس پر شاہد ہیں اور پوری اُمت کا اِجماع ہے۔عقلاً بھی نئے نبی کی ضرورت نہیں : عقلاً بھی کسی نئے نبی کے آنے کی ضرورت نہیں کیونکہ آقائے نامدار ۖ نے ہر معاملہ میں دُنیا کی رہبری کردی ہے، ہرچیز کے اُصول و ضوابط بتلادیے اور وہ اُصول و ضوابط ہیں بھی ایسے کہ اُن کی روشنی میں ہرپیش آنے والے مسئلہ کو ہمیشہ حل کیا جاسکتا ہے اور آپ کے بتلائے ہوئے اُصول تا قیامت محفوظ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آخر دم تک آخری نبی کے نقشِ قدم پرچلنے کی تو فیق بخشے، آمین ۔ (بحوالہ ہفت روزہ خدام الدین لاہور ١٩ جولائی ١٩٦٨ئ) ١ بخاری شریف کتاب المناقب رقم الحدیث ٣٦٢٠ ٢ مدلل