ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2017 |
اكستان |
|
اُن یقینی اور قطعی باتوں کو نہ صرف اِشتباہ کی نظر سے دیکھتے ہیں جن کو ایک سچا ریفار مر اعلیٰ درجہ کا ذکی اور عقلمند پیغمبر لے کر آیا ہے بلکہ اِس پر نہایت زور شور سے انکار کرتے ہیں اُس کا مذاق اُڑاتے ہیں آوازیں کستے ہیں اُس کو مجنون و دیوانہ بتاتے ہیں حالانکہ خود بیماریوں اور کم عقلیوں میں مبتلا ہیں اگر وہ اپنی بیماری کو پہچان جاتے تو یہ خرابی اُن میں رُو نما نہ ہوتی۔واقعہ معراج اور اُس کے منکرین : ہر پیغمبر کے زمانہ میں یہ حالت پیش آئی اور جناب سیّد الر سل علیہ السلام کے زمانہ نبوت میں بھی یہی واقعہ درپیش رہا، معراجِ جسمانی کا وہ مشہور و معروف واقعہ جس سے نہ صرف احادیث ِ صحیحہ کے دفاتر بھرے ہوئے ہیں بلکہ سورۂ اسراء اور سورۂ نجم کی آیتیں بھی کفایت سے زیادہ اس پرروشنی ڈال رہی ہیں، ہر زمانہ میں کم عقلوں اور روحانی بیماروں کے لیے موجب ِ حسرت ویاس ہوتا رہا خود زمانہ نبوت میں بہت سے لوگوں کی گمراہی اور ضلالت اِس کے باعث ظاہر ہوئی اور اِرتداد کے گڑھے میں گرکر بہتوں کو اپنا دین واِیمان گنوانا پڑا، اُن کوایسی تیز اور قوی حرکت اپنے جیسے جسم سے اِدراک عقل اور سمجھ سے بالا معلوم ہوئی اور مستحیل الوقوع خیال کرنے لگے، ہر چند بعد اَز امتحان جس میں بیت المقدس کی عمارت اور راستہ کی تفصیلات آنے اور جانے والے قافلوں کی کیفیت کا سوال تھا بہت سے لوگوں کو سچائی کا یقین ہوگیا (کیونکہ جناب ِ رسول اللہ ۖ نے اس امتحان میں نہایت اعلیٰ درجہ کی ڈگری حاصل کر لی تھی اور آپ کی خبریں واقعی ثابت ہوئی تھیں) مگر تاہم ایک جماعت اپنے گمراہانہ اصرار پر جمی ہی رہی۔ جس طرح قرونِ اُولیٰ اسلامیہ میں جبکہ یونانی فلسفہ عربی زبان میں ترجمہ ہو کر شائع ہوا تو اُس کے کمزور اور غیر قطعی اصولوں نے ایک تو کریلا کڑوا اور نیم چڑھا کا کام دیا، اس بطلیموسی فلسفہ کی بنا پر وہ شبہ جسمانی سر یع الحرکتی کاتو تھا ہی آسمانوں کے دروازوں اور اُس سے تجاوز کرکے صعود وغیرہ کے بھی کمزور شبہات پیش آئے، ان کو آسمانوں میں خرق والتیام کاہونا، ہر دو آسمان میں فاصلہ عظیمہ کا متحقق ہونا وغیرہ وغیرہ امورباعث ِ پریشانی ہوئے، اُس زمانہ میں بھی بہت سے لوگ ڈگمگاگئے، اگر ایک جماعت نے اپنے تدّین کا ثبوت انکار معراجِ جسمانی اور اثبات معراجِ روحانی سے دیا تھا تو دوسری جماعت نے