ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2017 |
اكستان |
|
گلدستہ ٔ اَحادیث ( حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ،اُستاذ الحدیث جامعہ مدنیہ لاہور )تین طرح کے قاضی : عَنْ بُرَیْدَةَ عَنِ النَّبِیِ ۖ قَالَ: اَلْقُضَاةُ ثَلٰثَة وَاحِد فِی الْجَنَّةِ وَاثْنَانِ فِی النَّارِ فَاَمَّا الَّذِیْ فِی الْجَنَّةِ فَرَجُل عَرَفَ الْحَقَّ فَقَضٰی بِہ وَرَجُل عَرَفَ الْحَقَّ فَجَارَ فِی الْحُکْمِ فَھُوَ فِی النَّارِ وَرَجُل قَضٰی لِلنَّاسِ عَلٰی جَھْلٍ فَھُوَ فِی النَّارِ ۔ ١ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہنبی کریم ۖ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں، ایک طرح کے تو جنت میں جانے والے اور دو طرح کے دوزخ میں جانے والے، جنت میں جانے والا قاضی تو وہ شخص ہے جس نے حق کو جانا پھر حق ہی کے مطابق فیصلہ بھی کیا اور جس نے حق کو جانا (لیکن اِس کے باوجود) اپنے حکم و فیصلہ میں ظلم کیا تو وہ دوزخی ہے ،(اسی طرح) جس شخص نے اپنی جہالت کی وجہ سے (حق کو نہیں پہچانا اور اِسی حالت میں) لوگوں کے تنازعات کا فیصلہ کیا تو یہ شخص بھی دوزخی ہے۔'' ف : اِس حدیث ِ پاک میں موجودہ دور کے اُن ججوں کے لیے انتہائی درجہ کی تہدید و تنبیہ ہے جو رشوت لے کر بے دھڑک ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنادیتے ہیں اور دیدہ و دانستہ ظالمانہ فیصلے کرتے ہیں، ایسے ججوں کو سوچنا چاہیے کہ اُنہوں نے ہمیشہ دُنیا میں نہیں رہنا ایک نہ ایک دن ضرور مرنا ہے اور اَحکم الحاکمین کی عدالت میں پیش ہوکر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے، انہیں چاہیے کہ خدا خوفی کے ساتھ مبنی بر انصاف فیصلے کیا کریں اور دُنیا کی خاطر اپنی عاقبت کو برباد نہ کریں اور دوذخ کو اپنا ٹھکانا نہ بنائیں۔ ١ ابوداود ج٢ ص١٤٧ ، ابن ماجہ ص١٦٨ ، مشکٰوة ص:٣٢٤