ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2017 |
اكستان |
|
والی ہیں اور اولاد بھی اُن کے زیادہ ہوتی ہے کیونکہ اُمت کی زیادہ کثرت میرے لیے باعث ِفخر ہوگی۔ (٣) نیز ارشاد ہوا : قریش کی عورتیں سب سے اچھی ہیں بچوں پر عاقالانہ اور سلیقہ مندانہ شفقت کرتی ہیں اور شوہر کی چیزوں کی نگرانی رکھتی ہیں ۔(صحاح) (٤) آنحضرت ۖ نے حضرت فاطمہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کی ذمہ داریاں اِس طرح تقسیم فرمادیں کہ گھر کے کاموں کی ذمہ دار حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور باہر کے کام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ذمہ چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا گھر کی صفائی خود کرتی تھیں چکی پیستی تھیں پانی بھی وہی لاتی تھیں( رضی اللہ عنہم اجمعین) ۔(الدر المختار باب النفقہ )نکاح کی حیثیت : ایک شخص پاک دامن رہتے ہوئے تن ِتنہا بیوی کے بغیر بھی زندگی کا سفر طے کر سکتا ہے لیکن وہ نظامِ قدرت کے تقاضوں سے منہ موڑ رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے احسان و انعام کو قبول کرنے سے پہلو تہی کررہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو اِس لیے پیدا کیا ہے کہ مرد کے لیے باعث ِ تسکین ہو ١ یہ اللہ تعالیٰ کے اس حسان کو قبول نہیں کر رہا اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک طاقت بخشی اس کو صحیح اور جائز طریقہ پر استعمال کرنے کے بجائے اس کو ضائع کررہا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے عطیہ کی ناسپاسی اور نا شکری کر رہا ہے معاذ اللہ ! اسی لیے آنحضرت ۖ نے نکاح کو اپنی سنت فرمایا اور ارشاد فرمایا مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ ٢ یعنی جو میری سنت سے منہ موڑے وہ میرا نہیں۔ مختصر یہ کہ اگر ضروریاتِ نکاح پوری کرنے کی ہمت ہو تو نکاح کرلینا سنت ہے اور اگر گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہوتونکاح کر لینا واجب ہو جاتا ہے اور خرچ کی ہمت نہ ہو تو خطرہ سے نجات کی سبیل روزہ ہے یعنی فاقہ جو روزہ کی صورت میں ہو۔ ١ ( وَجَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا لِیَسْکُنَ اِلَیْھَا)( سُورة الاعراف : ١٨٩) ٢ بخاری شریف کتاب النکاح رقم الحدیث ٥٠٦٣