ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2017 |
اكستان |
|
کی اُوپر والی حدیث کا ہے صرف الفاظ کا فرق ہے۔ (١١) عَنْ عَلِیٍّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ مِفْتَاحُ الصَّلٰوةِ الطُّھُوْرُ وَتَحْرِیْمُھَا التَّکْبِیْرُ وَ تَحْلِیْلُھَا التَّسْلِیْمُ ۔(سُنن ابی داود کتاب الطھارة رقم الحدیث ٦١ ) ''حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ نماز کی کنجی طہور( یعنی وضو ہے ) اور اُس کی تحریم تکبیر ہے (یعنی اللہ اکبر کہہ کر آدمی نماز میں داخل ہوجاتا ہے جس کے بعد بات چیت کرنے اور کھانے پینے کے ایسے جائز کام نماز کے ختم ہونے تک اُس کے لیے حرام اور نا جائز ہو جاتے ہیں) اور اُس کی تحلیل السلام علیکم کہنا ہے (یعنی نماز کے ختم ہونے پر السلام علیکم ورحمةاللہ کہنے کے بعد وہ ساری باتیں آدمی کے لیے حلال اور جائز ہوجاتی ہیں جو نماز کی وجہ سے اُس کے لیے حرام اور ناجائز ہوگئی تھیں)۔'' سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، سنن دارمی اور ابن ماجہ نے اِس حدیث کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا ہے۔ (١٢) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ مِفْتَاحُ الْجَنَّةِ الصَّلٰوةُ وَمِفْتَاحُ الصَّلٰوةِ الطُّھُوْرُ۔ (مسند احمد رقم الحدیث ١٤٦٦٢ ) ''حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا جنت کی کنجی نماز ہے اور نماز کی کنجی طہور (یعنی وضو) ہے۔''تشریح : ان دونوں حدیثوں میں ''طہور ''یعنی وضو کو نماز کی کنجی فرمایا گیا ہے گویا جس طرح کوئی شخص کسی مقفل گھر میں کنجی سے اُس کا تالا کھولے بغیر داخل نہیں ہو سکتا اِسی طرح بغیر وضو کے نماز میں داخل نہیں ہو سکتا۔