ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2017 |
اكستان |
|
''حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ جب کوئی مسلم بندہ وضو کرتاہے اور اُس میں اپنے چہرہ کو دھوتا ہے اور اُس پر پانی ڈالتا ہے تو پانی کے ساتھ اُس کے چہرہ سے وہ تمام گناہ نکل جاتے ہیں (گویا دُھل جاتے ہیں) جو اُس کی آنکھ سے سر زد ہوئے تھے اور اِس کے بعد جب وہ اپنے ہاتھ دھوتا ہے تو سارے گناہ اُس کے ہاتھوں سے خارج ہو جاتے ہیں اور دُھل جاتے ہیں جو اُس کے ہاتھوں سے ہوئے، اِس کے بعدجب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تووہ سارے گناہ اُس کے پاؤں سے خارج ہو جاتے ہیں جو اُس کے پاؤں سے ہوئے اور جن کے لیے اُس کے پاؤں استعمال ہوئے یہاں تک کہ وضو سے فارغ ہونے کے ساتھ وہ گناہوں سے بالکل پاک ہوجاتا ہے۔ ''تشریح : یہاں چند باتیں وضاحت طلب ہیں : (١) مندرجہ بالا دونوں حدیثوں میں وضو کے پانی کے ساتھ گناہوں کے جسم سے نکل جانے اور دُھل جانے کا ذکر ہے حالانکہ گناہ میل کچیل اور ظاہری نجاست جیسی کوئی چیز نہیں ہے جو پانی کے ساتھ نکل جائے اور دُھل جائے بعض شارحین نے اِس کی توجیہہ میں کہا ہے کہ گناہوں کے نکل جانے کا مطلب صرف معافی اور بخشش ہے اور بعض دوسرے حضرات نے فرمایا ہے کہ بندہ جو گناہ جس عضو سے کرتا ہے اُس کاظلماتی اثر اور اُس کی نحوست پہلے اُس عضو میں اور پھر اُس شخص کے دل میں قائم ہوجاتی ہے اور پھر جب اللہ کے حکم سے اور اپنے آپ کو پاک کرنے کے لیے وہ بندہ سنن وآداب کے مطابق وضو کرتا ہے تو جس عضو سے اُس نے گناہ کیے ہوتے ہیں اور گناہوں کے جو گندے اثرات اور ظلمتیں اُس کے اعضاء اور اُس کے قلب میں قائم ہو چکی ہوتی ہیں وضو کے پانی کے ساتھ وہ سب دُھل جاتی اور زائل ہوجاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کی معافی اور مغفرت بھی ہوجاتی ہے ،یہی دوسری توجیہہ اس عاجز کے نزدیک حدیث کے الفاظ سے زیادہ قریب ہے، واللہ تعالیٰ اعلم۔