ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2017 |
اكستان |
|
تشریح : وضو کی محافظت و نگہداشت کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمیشہ سنت کے مطابق اور آداب کی رعایت کے ساتھ کامل وضو کیا جائے اوریہ بھی ہو سکتا ہے کہ برابر باوضو رہے۔ شارحین نے یہ دونوں ہی مطلب بیان کیے ہیں اور اِس عاجز کے نزدیک محافظت کا لفظ اِن دونوں ہی باتوں پرحاوی ہے بہرحال رسول اللہ ۖ نے اس حدیث میں ''محافظت علی الوضوئ'' کو کمالِ ایمان کی نشانی اور اہلِ ایمان ویقین کا عمل بتایا ہے۔وضو پر وضو : (٧) عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ ۖ اَنَّہُ قَالَ مَنْ تَوَضَّأَ عَلَی طُھْرٍ کَتَبَ اللّٰہُ لَہ بِہ عَشْرَ حَسَنَاتٍ ۔ (ترمذی شریف ابواب الطھارة رقم الحدیث ٥٩) ''حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا جس شخص نے طہارت کے باوجود (یعنی باوضو ہونے کے باوجودتازہ) وضو کیا اُس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی۔''تشریح : اس ارشاد کا مقصد بظاہر یہ واضح کرنا ہے کہ باوضو ہونے کی حالت میں تازہ وضو کرنے کو فضول وعبث نہ سمجھا جائے بلکہ یہ ایسی نیکی ہے جس کے کرنے والے کے نامہ ٔ اعمال میں دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ اکثر علمائے کرام کی رائے یہ ہے کہ رسول اللہ ۖ کے اِس ارشاد کا تعلق اُس صورت سے ہے کہ جب پہلے وضو سے کوئی ایسی عبادت کر لی گئی ہو جس کے لیے وضو ضروری ہے اس لیے اگر کسی نے وضو کیا اور ابھی وضو سے کوئی عبادت اورنہیں کی اور نہ کوئی ایسا کام کیا جس کے بعد وضو کی تجدید مستحب ہوجاتی ہے توایسی صورت میں اُس کو تازہ وضو نہیں کرنا چاہیے۔