ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2017 |
اكستان |
|
روزہ رکھے اور دوسرے دن نہ رکھے پھر تیسرے دن روزہ رکھے اور چوتھے دن نہ رکھے ،روزمرہ روزہ رکھنے کی بہ نسبت یہ صورت بدرجہا بہتر ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیشہ روزہ رکھنے سے بھوکا رہنے کی عادت ہو جاتی ہے اور عادت ہو جانے کے بعد شکستگی اور قلب میں صفائی اور خواہشات ِنفسانی میں ضعف و کمزوری محسوس نہ ہوگی حالانکہ روزہ سے یہی مقصود ہے ،دیکھو مریض جب دوا کا عادی ہو جاتا ہے تو پھر دوا کچھ بھی نفع نہیں دیتی یہی سبب ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہمانے رسول اللہ ۖ سے روزہ کی بابت دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ ''ایک دن روزہ رکھو اور دوسرے دن کھائو پیو۔'' انہوں نے عرض کیاکہ یارسول اللہ ۖ میں اس سے بھی اعلیٰ درجہ چاہتا ہوں تو آپ نے جواب دیا کہ اِس سے اعلیٰ درجہ کوئی نہیں ہے۔ ایک مرتبہ آنحضرت ۖ کو اِطلاع ہوئی کہ فلاں شخص ہمیشہ روزہ رکھتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ ایسا روزہ رکھنا نہ رکھنا دونوں برابر ہیں۔(٣) پیر اور جمعرات کے روزہ کی حکمت : متوسط درجہ یہ ہے کہ عمر کاتہائی روزہ میں صرف ہو جائے لہٰذا مناسب ہے کہ ماہِ رمضان کے علاوہ ہر ہفتہ میں پیر اور جمعرات کاروزہ رکھ لیا کرو اِس حساب سے سال بھر میں چار ماہ اور چار یوم کے روزے ہوجائیں گے مگر چونکہ عیدالفطر اور عیدالا ضحی اور ایام تشریق میں روزہ رکھنا حرام ہے اور ممکن ہے کہ دونوں عیدیں پیر یا جمعرات کو پڑیں اور ایامِ تشریق میں سے ایک دن تو ضرور پیر یا جمعرات کا ہو گا اس لیے چار مہینے اور ایک دن کے روزے ہوجائیں گے اور بارہ مہینے کے تہائی یعنی چار مہینے سے صرف ایک دن زیادہ رہے گا یہ تہائی عمر کا حساب غور کرنے سے باآسانی سمجھ میں آجائے گا اس مقدار سے روزوںکا کم کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ اِس میں آسانی بھی ہے اور ثواب بھی بہت زیادہ ہے۔ ١ ١ فائدہ : روزہ جو فرض کے درجہ میں ہے جیسا رمضان کا روزہ یا واجب کے درجہ میں ہے جیسے نذر کا روزہ،کفارہ وغیرہ کا روزہ اِن کا رکھنا ضروری ہے ،باقی نفلی روزہ میں اختیار ہے اگر ہمت ہو تو رکھ لیںیا شیخ بطورِ علاج کے فرمائیںتو رکھ لیں۔