ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2017 |
اكستان |
|
مگر گزشتہ روز انہوںنے اپنے سابقہ بیان سے رجوع کرتے ہوئے دوسری بات کر دی ہے جو خاصی حوصلہ افزا ہے اور تعصبات کے اندھیروںمیں روشنی کی ایک کرن کی طرح ہے۔ اسلامی دنیا بھی دہشت گردی کے اِشو پر منتشر خیالات کی مالک ہے، زیادہ تر کا کہنا یہی ہے کہ کوئی القاعدہ ہے، یا داعش ہے ، طالبان ہیں، جماعت الاحرار ہے، لشکر طیبہ ہے،جیش محمد ہے اورا سی قبیل کی کئی تنظیمیں یا کسی ایک تنظیم کی مختلف شاخیں ہیں جنہوںنے اودھم مچا رکھا ہے۔ لاہور کی حالیہ دہشت گردی کے بعد خوابِ خرگوش میںمست قوم یکایک جاگی ، اسے احساس ہوا کہ یہ تو افغان ہیں جن پر ہم نے احسانات کیے مگر وہ ہماری جان کے دشمن بن گئے، ہم نے نہ صرف پاکستان کے اندر افغانوں کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی بلکہ فوجی حملے کر کے سرحد پار بھی افغانوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، یہ سب لوگ یہیں پر موجود تھے یاا فغانستان میں تھے مگر ہم نے ان کے خلاف ا س وقت تک کوئی کارروائی نہ کی جب تک انہوں نے لاہور میںپولیس والوں کو نشانہ نہیں بنایا، یہ ایک سربستہ راز ہے کہ راتوں رات یہ لوگ دہشت گرد کیسے کہلانے کے حقدار ٹھہرے اور انہیں زنجیریں کیوں پہنا دی گئیں یا پولیس مقابلوں میں انہیں کیوں بھون دیا گیا ! ! ! ہمارا روّیہ صدر ٹرمپ سے مختلف نہیں جس نے سات اسلامی ملکوں کے لوگوں کا داخلہ بند کر دیا مگر امریکہ میں عدلیہ زندہ ہے، ٹرمپ کے احکامات معطل کر دیے گئے اور مسلمانوں کی بد نصیبی کا سلسلہ رُک گیا، ہمارے ہاں دہشت گردی کی لہر جاری ہے اور زور شور سے جاری ہے، ابھی لال شہباز قلندر درگاہ کی سی سی ٹی فلم سامنے آئی ہے اورا س کو دیکھ کر بھی ہم نے ایک افغان چہرے مہرے والے شخص کو'' دہشت گرد'' قرار دے ڈالا۔